دنیا

پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر خود حل کرسکتے ہیں، امریکی صدر

بھارتی وزیر اعظم نے بتایا کہ کشمیر پر ان کا مکمل کنٹرول ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نریندر مودی سے ملاقات کے بعد گفتگو

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور باہمی طور پر مسئلہ کشمیر کو حل کر سکتے ہیں، تاہم ہم ان دونوں ممالک کی مدد کے لیے موجود ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جی-7 کانفرنس کے موقع پر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ایک علیحدہ ملاقات ہوئی۔

خیال رہے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔

ادھر فرانس میں بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں بھی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کی صورتحال کا تذکرہ کیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، بھارتی مجسٹریٹ

امریکی صدر نے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نے ان سے کہا ہے کہ ’کشمیر ہمارے کنٹرول میں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ رات اسی معاملے پر بات کی ہے، مجھے امید ہے کہ بھارتی وزیراعظم اپنے پاکستانی ہم منصب سے بات کریں گے اور دونوں بہتر نتیجے پر پہنچیں گے، کیونکہ دونوں ممالک اپنے طور پر مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔‘

بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق نریندر مودی کا کہنا تھا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تمام مسائل دوطرفہ نوعیت کے ہیں، اسی لیے وہ کسی دوسرے ملک کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور پاکستان 1947 سے قبل ایک ساتھ تھے، تاہم امید ہے کہ ہم ساتھ بیٹھ کر اپنے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے کہا تھا کہ ہمیں دونوں ممالک کی فلاح کے لیے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے بعد پاکستان کا عالمی سطح پر احتجاج جاری ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ نے عالمی طاقتوں سے رابطے کرکے انہیں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں منصفانہ پالیسی اختیار کی جائے، ایران

کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی حکومت کی پالیسی انتہا پسند آر ایس ایس کی پالیسی جیسی ہے جو خطہ ہمالیہ میں ہندو بالادستی قائم کرنے پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا کہ بھارت پلوامہ جیسی جھوٹی کارروائی کرکے پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، تاہم اگر ایسا ہوا تو اس کے اثرات پوری دنیا محسوس کرے گی۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھا دیئے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

خیال رہے کہ بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس بھی منعقد ہوا۔

یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔