کوچنگ کے لیے مصباح الحق کا نام کیوں اور کیسے آیا؟

پاکستان کی غیر ملکی کرکٹ کوچز سے جاگتی اور بجھتی رغبت کا سلسلہ اچانک مکی آرتھر و کمپنی کی غیر متوقع رخصتی کے ساتھ اختتام کو پہنچ گیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے پرتھ سے تعلق رکھنے والے جنوبی افریقی کوچ اور ان کے ساتھی یعنی بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاوور اور ٹرینر گرانٹ لوڈن کے معاہدوں میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سخت فیصلے کی زد میں دھرتی کے سپوت اظہر محمود بھی آئے ہیں، جو سینئر ٹیم کے باؤلنگ کوچ تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ پی سی بی نے دانستہ طور پر سابق کپتان مصباح الحق کا نام 20 اگست سے شروع ہونے والی پری ٹریننگ کیمپ کے لیے بطور کیمپ کمانڈنٹ دیا ہے، تاکہ بورڈ اپنے ارادوں کا کسی طور پر اظہار کرسکے۔
دوسری طرف، قانونی ترمیم کے بعد بورڈ نے اپنے نئے سفر کا آغاز کرتے ہوئے نئے کوچز کی تعیناتی کے لیے اشتہار چھپوا دیے۔ مگر پی سی بی حکام بلند نظر منصوبوں والے ان ایڈونچرز کے حوالے سے جو ذہنیت رکھتے ہیں اسے اگر مدنظر رکھیں تو یہ فقط اصلیت چھپانے کا ایک طریقہ ہے اور کچھ نہیں۔ تاہم آخر میں 1992ء ورلڈ کپ کے فاتح کپتان، جو اس وقت کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں یعنی وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کو ہی شاید سب سے زیادہ اہمیت دی جائے گی۔
پی سی بی ہیڈکوارٹرز سے ٹھوس اشارے مل رہے ہیں کہ موجودہ بورڈ یہ سمجھ رہا ہے کہ گزشتہ طریقہ کار کے تحت غیر ملکیوں پر انحصار کرنے سے قومی ٹیم کو ایک ایسی طاقتور ٹیم میں تبدیل نہیں کیا جاسکا جو تسلسل کے ساتھ بہترین ٹیموں کو چیلنج کرسکتی ہو۔
جو بات اکثر بھلا دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان غیر ملکی کوچز کے ادوار کے درمیان کچھ ایسے بھی دور آئے جب پاکستان ٹیم کو انتخاب عالم، مشتاق محمد، جاوید میانداد، معین خان اور وقار یونس جیسے ہمارے اپنے بڑے تجربہ کار کھلاڑیوں نے چلانے کی کوشش کی۔
ان مقامی ہیروز کو بھی اس قدر پیچیدہ کاموں میں اُلجھا دیا جاتا تھا کہ وہ بالآخر ہار مان کر چلے جاتے تھے، جبکہ ان میں سے چند ایسے بھی تھے جنہوں نے متنازع حالات میں بورڈ چھوڑا۔
پاکستانیوں کے ادوار کے دوران صرف ایک ایسی تقرری تھی جسے کامیاب کہا جاسکتا ہے، کم از کم ٹیسٹ کی سطح پر تو اسے کامیاب قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔
قومی ٹیم کے سب سے زیادہ سجیلے بلے باز رہنے والے محسن حسن خان نے مسلسل 3 سیریز میں پاکستان کو کامیابی دلوائی، 2012ء کی ابتدا میں متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کے خلاف تاریخی وائٹ واش بھی ان میں سے ایک ہے۔
تاہم وقتی طور پر انتظامات سنبھالنے کے لیے جب محسن کو بطورِ ہیڈ کوچ لایا گیا تو انہوں نے چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی رضاکارانہ طور پر چھوڑ دیا تھا، لیکن ان کو بھی اس لیے ایک طرف ہونا پڑا کہ پی سی بی نے سری لنکا میں پیدا ہونے والے سابق آسٹریلین بلے باز واٹمور کی صورت میں ایک سندیافتہ کوچ لانے کا ذہن بنا چکا تھا۔
26 ٹیسٹ فتوحات کے ساتھ ملک کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان کا اعزاز رکھنے والے مصباح الحق کی سی وی اس نئے سیٹ اپ کے معیار پر پوری اترتی ہے جس کا خاکہ بقول شخصے پی سی بی کے ذہن میں بنا ہوا ہے۔ بطور کپتان انہوں نے 9 برس قبل لارڈز میں پیش آنے والے اسپاٹ فکسنگ واقعے کے بعد قومی ٹیم کی ساکھ پر لگنے والے داغ کو دھونے میں زبردست کردار ادا کیا تھا۔
بلاشبہ ٹیم کی بہتری کی خاطر استادوں کو بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ہمارے کلچر میں کسی مقصد کو پانے میں جو چیز ہمیشہ رکاوٹ بنتی ہے وہ اناؤں کی تکرار ہے، اور افسوس کے ساتھ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مٹھ بھیڑ کا سلسلہ تاحال ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
موقعے ہتھیانے کی کوشش میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی روایت ہمارے کرکٹ کلچر میں عام ہے۔ تازہ ترین مثال آپ کے سامنے ہے: اب دیکھیے نا ٹی 20 سطح پر کامیابیاں سمیٹنے اور 2 برس قبل آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے باوجود حالیہ آئی سی سی ورلڈ کپ کی ناکامی کی وجہ سے مکی آرتھر کس طرح یکایک بُرے بن گئے۔
تاہم مصباح کی صورت میں پی سی بی کو ایک ایسا شخص مل سکتا ہے جو تاریخ کے پہلے سلیکٹر مع ہیڈ کوچ کی حیثیت سے پاکستان کو درست سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اس نئے عہدے کی تفصیل کی افواہیں سچ ثابت ہوں۔ بہتر ہوتا کہ عہدے کا نام بدل کر ’ٹیم ڈائریکٹر رکھ لیا جاتا‘۔
مصباح پر ’روایتی سیفٹی فرسٹ‘ طرز کی دفاعی کرکٹ کھیلنے پر بھی بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے۔
ہمیں آنے والے وقت کا بے صبری سے انتظار رہے گا۔
یہ مضمون 25 اگست 2019ء کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین ایؤس میں شائع ہوا۔