پاکستان

اس طرف کے کشمیر کو بچانے کیلئے بھی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے، مولانا فضل الرحمٰن

بھارت کے اقدام سےحکومت مکمل آگاہ تھی لیکن مجرمانہ غفلت سےکام لیا،احتجاجی تحریک میں کشمیربھی شامل ہوگا،سربراہ جے یو آئی
|

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اکتوبر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خاتمے کے لیے اسلام آباد مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرف کے کشمیر کو بچانے کے لیے بھی اس حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔

اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مرکزی مجلس شوریٰ کے 2 روزہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر حکمت عملی اور اسلام آباد لاک ڈاؤن پر مشاورت ہوئی اور اکتوبر میں اسلام آباد لاک ڈاون، آزادی مارچ کا فیصلہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پورا ملک اس نا اہل اور ناجائز حکومت کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گا، اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک عمل کے لیے رابطوں میں ہیں اور بھرپور اشتراک عمل کے ساتھ اسلام آباد میں یکجا ہونے کی کوششیں جاری ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کے حوالے سے بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دوٹوک موقف ہے کہ حکومت، بھارت کے اس اقدام سے مکمل آگاہ تھی لیکن پوری قوم اور ہماری جماعت کشمیریوں کے شابہ بشانہ رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں:سید علی گیلانی کا 5 نکاتی لائحہ عمل کا اعلان، پاکستان سے مدد کی اپیل

انہوں نے کہا کہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے منشور میں پہلے ہی اس عمل کا بتا دیا تھا لیکن ہماری حکومت نے مجرمانہ غفلت سے کام لیا اور شعوری طور پر بین الاقوامی سفارت کاری سے اجتناب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی مجرمانہ پالیسیوں کو بھی اپنی احتجاجی تحریک کا حصہ بنائیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے کیے گئے غیر معمولی اقدامات نے ماحول کو خراب کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں کرفیو جاری ہے اور بھوک اور افلاس رقص کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی کی جانب سے کشمیر کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ طے تھا مگر حکومت نے بین الاقوامی سفارت کاری میں تساہل کا مظاہرہ کیا اور ہم اپنی تحریک میں اب کشمیر کا ایشو بھی شامل کریں گے۔

مزید پڑھیں:موجودہ حکومت میں کشمیریوں کو حقوق دلوانے کی اہلیت نہیں، بلاول

بھارتی وزیر اعظم کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایوارڈ دینے پر اپنے ردعمل میں انہوں نے کہا کہ ‘ایسے وقت میں جب کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کو رسائی نہیں دی جارہی لیکن کسی اسلامی ملک میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل کو ایوارڈ دینا مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان سے یہ ایوارڈ واپس لے لیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘میں ایک مرتبہ پھر وضاحت کررہا ہوں کہ تمام سیاسی جماعتوں کا جو ایک مشترک نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ 25 جولائی 2018 کو ہونے والےانتخابات جعلی تھے اس کے نتیجے میں بننے والی اکثریت اور حکومت جعلی ہے اور اس کے نتیجے میں بننے والا وزیراعظم جعلی ہے’۔

حکومت کے خلاف عوام کو متحد کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کا ہر طبقہ متاثر ہوا، مذہبی طبقہ اپنے مطالبات، احساسات اور اعتقادات کی بنیاد پر، تاجر طبقہ اپنے معاشی بحران، نوجوانان بے روزگاری کی وجہ سے، عوام مہنگائی کی وجہ سے، میڈیا ان پر لگائی گئی قدغنوں کی وجہ سے اور وکلا حتیٰ کہ ججز سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگ کرب میں ہیں، یہ سب لوگ مل کر اس حکومت کے خاتمے کی نیت سے اسلام آباد آئیں گے’۔

یہ بھی پڑھیں:'کشمیر پر حالیہ تنازع سے جوہری جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوگیا'

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے مسائل کو لے آئیں گے اور کوئی دوسرا اپنا مسئلہ لے کر آئے گا اور اتحاد کا نکتہ اور تمام خرابیوں کی ذمہ دار یہ حکومت ہے جو نااہل اور ناجائز ہے’۔

الیکشن کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم انتخابات کے نتیجے میں بھی الیکشن کمیشن کو ناکام قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ابھی صدر مملکت نے غیر آئینی طور پر دو اراکین طے کیے ہیں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے بعد کیا الیکشن کمیشن غیر جانب دار رہ سکتا ہے اور ہماری جو رائے تھی کیا ہو درست ثابت نہیں ہوئی اب یہ وہ اپنے امیج ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے کہ انہوں نے دو آدمیوں کا حلف لینے سے انکار کیا’ ۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘جب تک یہ حکومت ہے تو آپ کے پاس جو کشمیر ہے یہ بھی بک جائے گا اور اس کشمیر کو بچانے کے لیے بھی اس حکومت کا خاتمہ ضروری ہے، آپ کشمیر کے ہمدرد ہیں اور آپ نے دیکھ نہیں لیا کہ آدھے کشمیر کو انہوں نے بیچ دیا، یہ اس نئے دور کا نیا گلاب سنگھ ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کے لیے ہم بھرپور حکمت عملی بنارہے ہیں کہ ایک صورت مشکل ہوگئی تو کیا دوسری بھی اور دوسری مشکل ہوئی تو تیسری صورت کیا ہوگی، ملک کے چپے چپے کو اٹھائیں گے اور اس حکومت کو نہیں رہنے دیں گے’۔