دنیا

نسل کشی کا دن : بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں 2 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی ریلی

رخائن میں ہمیں مارا گیا، قتل کیا گیا لیکن وہ آج بھی ہمارا گھر ہے اور ہم واپس جانا چاہتے ہیں، روہنگیا رہنما

بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم 2 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے میانمار کی فوج کی جانب سے پر تشدد کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد وہاں سے فرار ہونے کے 2 سال مکمل ہونے پر ریلی کا انعقاد کیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اگست 2017 میں میانمار کی ریاست رخائن سے 7 لاکھ 40 ہزار روہنگیا مسلمان فوج کی بربریت کے باعث فرار ہونے پر مجبور ہوئے تھے جبکہ جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں قائم کیمپوں میں کریک ڈاؤن سے قبل فرار ہونے والے 2 لاکھ افراد پہلے سے مقیم تھے۔

دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ میں موجود بچوں، خواتین اور مردوں نے ’ نسل کشی ‘ کے دن پر ریلی کے دوران ’ خدا عظیم ہے، روہنگیا زندہ باد‘ کے نعرے بلند کیے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کے اعلان کے جواب میں روہنگیا پناہ گزینوں کا واپس لوٹنے سے انکار

50 سالہ طیبہ خاتون نے کہا کہ ’ میں یہاں اپنے 2 بیٹوں کے قتل کا انصاف مانگنے آئی ہوں ، میں اپنی آخری سانس تک اںصاف مانگتی رہوں گی‘۔

خیال رہے کہ میانمار کی حکومت نے کہا تھا کہ وہ پولیس اہلکاروں پر حملوں کے بعد روہنگیا انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کررہے ہیں لیکن گزشتہ برس اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں میانمار فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

روہنگیا رہنما محب اللہ نے کہا کہ غیرریاستی اقلیت اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں لیکن وہ اسی وقت واپس جائیں گے جب انہیں شہریت ، حفاظت کی یقین دہانی اور اپنے دیہاتوں میں مقیم ہونے کی اجازت دی جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہم نے میانمار کی حکومت سے مذاکرات کا کہا لیکن اب تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا‘۔

محب اللہ نے کہا کہ ’ رخائن میں ہمیں مارا گیا، قتل کیا گیا اور ریپ کا نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ آج بھی ہمارا گھر ہے اور ہم واپس جانا چاہتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مہاجرین کا باقاعدہ شناخت کے بغیر میانمار واپسی سے انکار

پولیس افسر ذاکر حسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ 2 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں نے پرامن ریلی میں شرکت کی۔

دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ اور 6 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی رہائش گاہ کتوپلاگ پناہ گزین کیمپ میں سخت سیکیورٹی قائم ہے۔

مقامی پولیس کے سربراہ عبدالمنصور نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے سیکڑوں پولیس اہلکار، فوجی اور باڈی گارڈز تعینات ہیں‘۔

مذکورہ ریلی کا انعقاد پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی ناکام کوشش کے 3 روز بعد کیا گیا جس میں کوئی روہنگیا مسلمان میانمار واپس نہیں گیا تھا۔

پناہ گزین کیمپوں میں پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد قتل

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی پولیس کا کہنا ہے کہ پناہ گزین کیمپ میں موجود 2 روہنگیا پناہ گزینوں کو حکمراں جماعت کے عہدیدار کے قتل کے الزام میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے 2 روہنگیا افراد کو ہلاک کرنا ایک فرضی انکاؤنٹر معلوم ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کا قتل، امریکا نے میانمار کی فوجی قیادت پر پابندی لگادی

مقامی پولیس انسپکٹر نے کہا ’ دونوں افراد کو جب تک ہسپتال منتقل کیا گیا وہ ہلاک ہوچکے تھے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مذکورہ واقعہ کاز بازار ڈسٹرکٹ میں واقع پناہ گزین کیمپ میں پیش آیا۔

پولیس انسپکٹر نے مزید کہا کہ مسلح پناہ گزینوں نے حکمراں جماعت عوامی لیگ پارٹی کے یوتھ ونگ کے عہدیدار کو ہلاک کیا تھا اور مشتبہ افراد کی تلاش کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں دونوں افراد شدید زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 22 اگست کو عوامی لیگ کے رکن عمر فاروق کو تکناف کے علاقے میں واقع آباد کاری میں سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔