نقطہ نظر

پاکستان میں کاروبار کرنا اتنا مشکل کیوں ہوگیا ہے؟

کاروبار کرنا آسان نہیں۔ کاروباری حضرات کو سپلائرز، ملازمین اور خریداروں سمیت کئی لوگوں سے تعلقات بنائے رکھنے ہوتے ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

کیک بنانے والی ایک خاتون کے پاس اتنی رقم نہیں تھی جس سے وہ اپنی دکان کھول پاتی، لہٰذا انہوں نے اپنے بنائے ہوئے کیک دیگر بیکریوں میں رکھوانا شروع کردیے اور ان کی فروخت پر بیکری مالکان کو مختص کردہ کمیشن بھی دینے لگیں۔ تاہم ان کے کیک کو مناسب توجہ درکار ہوتی ہے، جیسے مستقل بنیادوں پر مخصوص درجہ حرارت، ایک سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے مناسب ہینڈلنگ، وغیرہ۔

بیکری تک کیک کی فراہمی تک وہ ان ساری باتوں کا خاص خیال رکھتیں لیکن ایک بار جب کیک بیکری پہنچ جاتے تو ان کے پراڈکٹ کی ہینڈلنگ میں ان کا عمل دخل زیادہ نہیں رہ پاتا۔

لیکن جلد ہی انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اپنی بنائی ہوئی اشیا کی فروخت کا یہ ماڈل مناسب نہیں ہے کیونکہ دیگر دکان والے ان کے کیک کا اس طرح خیال نہیں رکھتے جس طرح وہ خود رکھتی ہے۔ اب اگر کیک فروخت ہونے سے پہلے خراب ہوجائے تو ان کی کمائی اور ساکھ دونوں کو ہی دھکچا پہنچتا۔

بالآخر وہ کسی نہ کسی طرح اپنا دکان کھولنے میں کامیاب ہو ہی گئیں اور اب ان کا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کاروبار کا آغاز 3 دہائیوں پہلے کیا تھا۔ لیکن اگر 30 سال پہلے کے بجائے آج اس کام کی شروعات کی ہوتی تو موٹر سائیکل کی سستی ڈلیوری سروس اور کم ترین ریٹ پر ٹیلی فون سروس کی موجودگی میں ان کا اپنا ڈلیوری نظام ہوسکتا تھا اور ان کو دیگر بیکریوں کی مدد کی سرے سے ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

کاروبار کرنا آسان نہیں، بلکہ مشکل مرحلوں سے گزر کر یہ کام ہوتا ہے۔ کاروباری حضرات کو مال فراہم کرنے والوں، اپنے ملازمین، ہول سیلرز، ریٹیلرز اور خریداروں کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جہاں پیچیدہ اشیائے کاروبار تیار ہوتی ہیں اور / یا پیچیدہ خدمات فراہم کی جارہی ہوتی ہیں، وہاں خام مال، مصنوعات کے پارٹس اور ان کی سروسز کے شعبہ جات میں شامل ایسے تعلقات کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ (گاڑی بنانے والی کمپنیوں کے سپلائرز اور شورومز کے ساتھ تعلقات کا ہی اندازہ لگا لیجیے)۔

ان تعلقات کی نوعیت کافی پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ مصنوعات کی خریداری یا ان کی سروسز تک کے سارے مرحلے میں ایک کمپنی کو اپنے تعلقات کو ترتیب دینے اور پھر ان سے معاہدے کے لیے باقاعدہ طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جیسے اگر آٹو موبائل کمپنیوں کی بات کریں تو ٹائر کی خریداری اور پھر منڈی سے لے کر کاروباری ادارے کے اندر استعمال ہونے والے پارٹس کو تیار کرنے کا مرحلہ۔

ایسا ماحول جہاں پیچیدہ ٹھیکے داری نہ صرف مشکل بلکہ مہنگی بھی ہے وہاں کاروباری اداروں کے پاس 2 ہی آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو وہ مارکیٹ سے پارٹس خرید لائیں یا پھر خود سے تیار کریں۔ مگر جب بات آتی ہے طویل المدتی معاہدوں، اپنی مرضی کی تبدیلیوں والی مصنوعات کی تیاری کے ٹھیکوں جیسے دیگر معاہدوں کی تو انہیں ٹھیکے داری کی زیادہ تر اقسام تک رسائی حاصل ہی نہیں ہوتی۔ یہ رکاوٹ پراڈکٹ اور سروس منڈیوں میں بگاڑ پیدا کردیتے ہیں اور کاروباری اداروں اور صنعتوں کو زیادہ پھلنے پھولنے سے روکتی ہے۔

اگر کیک بنانے والی خاتون کو مختلف بیکریوں اور دکانوں کے ساتھ قابلِ بھروسہ، قابلِ استطاعت اور قابلِ اطلاق معاہدوں تک رسائی حاصل ہوتی تو وہ اپنے کیکس کی دیکھ بھال کو یقینی بنا پاتی اور یوں انہیں اپنے کاروبار میں ریٹیل آپریشن کو شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

اپنی ریٹیل دکان کھولنے میں ایک بڑی لاگت آتی ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے کیک بنانے والے ہیں جو صرف اس لیے کاروبار نہیں کر پارہے کیونکہ وہ اپنی ریٹیل دکان کھولنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر یہ ٹھیکے داریاں دسیتاب ہوتیں تو کیک بنانے والی خاتون اور بھی زیادہ بہتر کیکس بنانے پر اپنی توانائی خرچ کرپاتی اور اپنے کیکس کی سپلائی میں وسعت لا پاتی۔ ان کے کاروبار کے پھلنے پھولنے کی رفتار ہی مختلف ہوتی۔ مگر اس کے برعکس انہوں نے ابتدائی کئی برس اپنی خود کی ریٹیل دکان کھولنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔

میں یہاں کیک بنانے والی خاتون کو تو صرف مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں، مگر یہی بات تقریباً تمام مصنوعات یا سروس فراہم کرنے والوں پر بھی مصداق آتی ہے۔ گاڑیوں کے پارٹس بنانے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ 'وہ نٹس اور بولٹس خود تیار کرتے ہیں کیونکہ وہ مارکیٹ پر زیادہ بھروسہ نہیں کرسکتے کہ وہ انہیں مطلوبہ معیار اور تعداد میں طے شدہ وقت میں تیار کرکے فراہم کرسکے گی'۔

کپڑوں کے ریٹیلر کو اپنا سلائی کا یونٹ صرف اس لیے قائم کرنا پڑا کیونکہ لاہور جیسے اتنے بڑے شہر میں ایک بھی قابلِ بھروسہ درزی میسر نہیں آسکا حالانکہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں درزی اپنی دکانیں لیے بیٹھے ہیں۔

ایک یونیورسٹی کو متعلقہ اساتذہ سے تعلقات سنبھالنے میں چونکہ دشواری پیش آتی ہے، لہٰذا وہ کم سندیافتہ لیکن کُل وقتی اساتذہ سے کام لے رہی ہے۔

ایک دوسری یونیورسٹی کو یہ محسوس ہوا کہ وہ موجودہ عمارتوں کو ہاسٹل کے طور پر کرائے پر نہیں دے سکتی کیونکہ اس کی طرزِ تعمیر مطلوبہ معیار کے برعکس ہے، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ ان عمارتوں کو اپنے ترجیحی طرزِ تعمیر میں ڈھلوانے کے لیے سرمایہ کاروں کے ساتھ طویل المدتی معاہدہ نہیں کرسکتی، لہٰذا اسے مجبوراً اس کام کے لیے اپنا وہ سرمایہ لگانا پڑتا ہے جسے فیکلٹی کی بہتری، پروگرامز کو وسعت دینے، ہاسٹلز کی تعمیر اور دیگر کاموں پر لگایا جاسکتا تھا۔

ایک ریٹیل چین اسٹور کے مالک نے بتایا کہ ’اس کے پاس صرف 4 شاخیں ہیں کیونکہ اس کے 4 ہی بالغ بیٹے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پیشہ ورانہ منیجمنٹ پر بھروسہ نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے اپنے کاروبار کو 4 شاخوں تک ہی محدود وسعت دی ہوئی ہے‘۔

ان ساری باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ٹھیکیداری تعلقات ممکن ہی نہیں۔ ایسے کئی تعلقات ہیں جو مل کر بخوبی اپنا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ پھر ہم ایک ایسی متحرک دنیا میں بستے ہیں جہاں وقت کے ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں اور نئے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ کمزور ٹھیکیداری ماحول اور معاہدوں پر عمل درآمد کی کمزوریوں کے باعث کاروباری اداروں کے لیے لاگتیں بڑھ جاتی ہیں اور آپشنز محدود ہوجاتے ہیں۔ پیداواری راہیں بگاڑ کی طرف مائل ہوجاتی ہیں اور ادارے اکثر دوسرے یا تیسرے بہترین آپشن کی طرف جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے باعث کچھ جدتوں کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں ہمارے پاس ’کے مارٹ‘ یا ’وال مارٹ‘ کے ہم پلہ کوئی نہیں ہے۔ کیا معاہدوں پر عمل درآمد کی کمزوریوں کی یہ اکلوتی وجہ ہے؟ باٹا اور سروس کی پاکستان میں دہائیوں سے سیکڑوں دکانیں موجود ہیں۔ بینکوں کے بھی جال یہاں موجود ہیں۔

تو پھر ریٹیل کے شعبے میں اس کا رجحان کیوں کم ہے؟ حتیٰ کہ دوا سازی کا شعبے میں بھی ایسا ہو رہا ہے کہ جہاں ساکھ ’مہربان اجارہ داری‘ (Favour oligopoly) کے انتظامات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ (فضل الدین اپنی ایک ساکھ رکھتا ہے اور لوگ تنہا دکان کو چھوڑ کر فضل الدین کی دکان پر ہی جاتے ہیں)۔ چین اسٹورز کی ابھی صرف ابتدا ہوئی ہے جبکہ فرنچائز ماڈل بھی ابھی اپنے قدموں پر پوری طرح کھڑا نہیں ہوسکا ہے۔

پاکستان میں میکرو سطح پر ہی اصلاحات کی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن حقیقی گفتگو کو مائیکرو سطح پر لانا لازمی ہے۔ مثلاًیہ وہ ایک شعبہ ہے جس میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر مقصد صنعتکاری کو بڑھانا، برآمدات میں اضافہ کرنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے تو حقیقی فائدے مائیکرو سطح پر مذکورہ اصلاحات سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔


یہ مضمون 23 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔