پاکستان میں کاروبار کرنا اتنا مشکل کیوں ہوگیا ہے؟


کیک بنانے والی ایک خاتون کے پاس اتنی رقم نہیں تھی جس سے وہ اپنی دکان کھول پاتی، لہٰذا انہوں نے اپنے بنائے ہوئے کیک دیگر بیکریوں میں رکھوانا شروع کردیے اور ان کی فروخت پر بیکری مالکان کو مختص کردہ کمیشن بھی دینے لگیں۔ تاہم ان کے کیک کو مناسب توجہ درکار ہوتی ہے، جیسے مستقل بنیادوں پر مخصوص درجہ حرارت، ایک سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے مناسب ہینڈلنگ، وغیرہ۔
بیکری تک کیک کی فراہمی تک وہ ان ساری باتوں کا خاص خیال رکھتیں لیکن ایک بار جب کیک بیکری پہنچ جاتے تو ان کے پراڈکٹ کی ہینڈلنگ میں ان کا عمل دخل زیادہ نہیں رہ پاتا۔
لیکن جلد ہی انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اپنی بنائی ہوئی اشیا کی فروخت کا یہ ماڈل مناسب نہیں ہے کیونکہ دیگر دکان والے ان کے کیک کا اس طرح خیال نہیں رکھتے جس طرح وہ خود رکھتی ہے۔ اب اگر کیک فروخت ہونے سے پہلے خراب ہوجائے تو ان کی کمائی اور ساکھ دونوں کو ہی دھکچا پہنچتا۔
بالآخر وہ کسی نہ کسی طرح اپنا دکان کھولنے میں کامیاب ہو ہی گئیں اور اب ان کا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کاروبار کا آغاز 3 دہائیوں پہلے کیا تھا۔ لیکن اگر 30 سال پہلے کے بجائے آج اس کام کی شروعات کی ہوتی تو موٹر سائیکل کی سستی ڈلیوری سروس اور کم ترین ریٹ پر ٹیلی فون سروس کی موجودگی میں ان کا اپنا ڈلیوری نظام ہوسکتا تھا اور ان کو دیگر بیکریوں کی مدد کی سرے سے ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
جہاں پیچیدہ اشیائے کاروبار تیار ہوتی ہیں اور / یا پیچیدہ خدمات فراہم کی جارہی ہوتی ہیں، وہاں خام مال، مصنوعات کے پارٹس اور ان کی سروسز کے شعبہ جات میں شامل ایسے تعلقات کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ (گاڑی بنانے والی کمپنیوں کے سپلائرز اور شورومز کے ساتھ تعلقات کا ہی اندازہ لگا لیجیے)۔
ان تعلقات کی نوعیت کافی پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ مصنوعات کی خریداری یا ان کی سروسز تک کے سارے مرحلے میں ایک کمپنی کو اپنے تعلقات کو ترتیب دینے اور پھر ان سے معاہدے کے لیے باقاعدہ طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جیسے اگر آٹو موبائل کمپنیوں کی بات کریں تو ٹائر کی خریداری اور پھر منڈی سے لے کر کاروباری ادارے کے اندر استعمال ہونے والے پارٹس کو تیار کرنے کا مرحلہ۔
ایسا ماحول جہاں پیچیدہ ٹھیکے داری نہ صرف مشکل بلکہ مہنگی بھی ہے وہاں کاروباری اداروں کے پاس 2 ہی آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو وہ مارکیٹ سے پارٹس خرید لائیں یا پھر خود سے تیار کریں۔ مگر جب بات آتی ہے طویل المدتی معاہدوں، اپنی مرضی کی تبدیلیوں والی مصنوعات کی تیاری کے ٹھیکوں جیسے دیگر معاہدوں کی تو انہیں ٹھیکے داری کی زیادہ تر اقسام تک رسائی حاصل ہی نہیں ہوتی۔ یہ رکاوٹ پراڈکٹ اور سروس منڈیوں میں بگاڑ پیدا کردیتے ہیں اور کاروباری اداروں اور صنعتوں کو زیادہ پھلنے پھولنے سے روکتی ہے۔
اگر کیک بنانے والی خاتون کو مختلف بیکریوں اور دکانوں کے ساتھ قابلِ بھروسہ، قابلِ استطاعت اور قابلِ اطلاق معاہدوں تک رسائی حاصل ہوتی تو وہ اپنے کیکس کی دیکھ بھال کو یقینی بنا پاتی اور یوں انہیں اپنے کاروبار میں ریٹیل آپریشن کو شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔