پاکستان

بھارت آگ سے کھیل رہا ہے جو اس کے سیکیولرزم کو جلادے گی، صدر عارف علوی

بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کیا، پاکستان کے ساتھ بات چیت سے بھی انکار کیا، صدر مملکت

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ بھارت اس وقت آگ سے کھیل رہا ہے جو اس کے سیکولرزم کو جلا کر راکھ کردے گی۔

امریکی ۔ کینڈین نیوز چینل 'وائس نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وہاں لوگوں کی زندگی کو بہتر بنائے گی تو وہ ’احمقوں کی جنت میں رہتی ہے۔‘

اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ بھارت اس وقت آگ سے کھیل رہا ہے اور یہ آگ بلآخر اس کے سیکولر تشخص کو جلا کر راکھ کر دے گی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری نہ ہونا مایوس کن تھا جس پر صدر مملکت نے جواب دیا کہ اس حوالے سے بہت زیادہ بیک ڈور بات چیت ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کافی عرصے بعد ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر بین الاقوامی مسئلہ بن گیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، عالمی ادارے کی وارننگ

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کو نظر انداز کیا اور پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بات کرنے سے انکار کیا۔

صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ یہ کب تک جاری رہے گا؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدے کو کافی وقت گزر چکا ہے۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا دنیا خاموش رہ سکتی ہے اور دونوں فریقین پر بات چیت کرنے پر زور دے سکتی ہے جبکہ ان میں سے ایک فریق بات کرنے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال سے یہاں غالبانہ سوچ کے ذریعے کشمیر کو نگلنے کا ارادہ ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا۔‘

یہ بھی پڑھیں: سری نگر: بھارتی جبر کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فورسز کی شیلنگ، متعدد زخمی

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے گا، تاہم مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھنے کے بعد ہی وہاں کے عوام اپنے ارادے بتائیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کا انتباہ دہراتے ہوئے صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’ایسا ممکن ہے کہ بھارت پلوامہ حملے جیسی جھوٹی کارروائی کروائے جسے جواز بنا کر وہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان جنگ کا آغاز نہیں چاہتا، تاہم اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم دفاع کا حق رکھتے ہیں۔‘

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھا دیئے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

خیال رہے کہ بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس بھی منعقد ہوا۔

یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔