مقبوضہ کشمیر: بھارتی اقدام کے خلاف اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کا اعلان
مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارتی فوج کے کرفیو اور دیگر پابندیوں پر مزاحمت کرتے ہوئے 23 اگست کو نماز جمعہ کے بعد سری نگر میں سوناور کے مقام پر اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کا اعلان کردیا۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق غیر قانونی اقدامات اور وادی میں قبضے کے خلاف یہ احتجاج کیا جائے گا۔
اس مارچ کی کال حریت رہنماؤں کی جانب سے سری نگر اور وادی کے دیگر حصوں میں لگائے گئے پوسٹرز کے ذریعے دی گئی۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، عالمی ادارے کی وارننگ
رہنماؤں کی جانب سے ہر نوجوان، بزرگ، مرد اور عورت پر زور دیا گیا کہ وہ اس مارچ کا حصہ بنے تاکہ بھارت اور پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچایا جاسکے کہ کشمیری اپنے علاقے میں بھارتی قبضہ اور ہندو ثقافت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
اس مارچ کا ایک مقصد بھارت کی جانب سے باہر کے لوگوں کو یہاں بسا کر مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش کی مزاحمت کرنا ہے۔
کے ایم ایس کے مطابق نماز جمعہ کے خطبات کے دوران علما اس معاملے کو اٹھائیں گے۔
علاوہ ازیں مقبوضہ وادی میں 18ویں روز بھی کرفیو اور مواصلاتی نظام کا مکمل بلیک آؤٹ رہا جس نے پورے علاقے میں موجود آبادی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا۔
یہی نہیں بلکہ گلیوں میں ہزاروں بھارتی فوجیوں کی موجودگی اور سڑکوں پر خاردار تاریں اور رکاوٹیں ہونے کے باعث پیدل اور گاڑیوں کی نقل و حمل بھی بند رہی۔
تاہم بھارتی پابندیوں کے باوجود مختلف مقامات پر کشمیری نوجوان کرفیو اور دیگر پابنیوں کو توڑتے ہوئے باہر نکل آئے اور آرٹیکل 370 کے خاتمے پر احتجاج کیا۔
سری نگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں احتجاج کرنے والوں پر بھارتی فوج نے گولیاں، پیلٹس اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے، جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود بھارت مخالف مظاہرے
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیری کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان سے قبل ہی ہزاروں کی تعداد میں اضافی بھارتی فوجی مقبوضہ وادی میں مرکزی چیک پوائنٹس پر بھیجی گئیں تھیں جبکہ یہ علاقہ پہلے ہی دنیا کا سب سے زیادہ عسکری زون ہے، اس کے ساتھ ساتھ وادی کے 70 لاکھ لوگوں کے لیے ٹیلی فونی رابطے، موبائل فون، بروڈبینڈ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی سروسز کو معطل کردیا تھا۔
علاوہ ازیں بھارت کی جانب سے متنازع علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مزاحمت کو روکنے کے لیے مکمل سیکیورٹی لاک کردیا گیا تھا جبکہ اب تک مقبوضہ وادی میں کم از کم 4 ہزار افراد، جس میں زیادہ تک نوجوان ہیں انہیں حراست میں لیا جاچکا ہے۔