دنیا

مقبوضہ کشمیر: امریکا کا گرفتار افراد کو رہا، حقوق بحال کرنے کا مطالبہ

ہمیں اس علاقے کے رہائشیوں پر مستقل پابندیوں اور حراست میں لیے جانے کی رپورٹس پر مسلسل تشویش ہے، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ

امریکا نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مقبوضہ جموں اور کشمیر میں بنیادی آزادی کو بحال اور گرفتار افراد کو فوری رہا کرے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ 'ہمیں اس علاقے کے رہائشیوں پر مستقل پابندیوں اور حراست میں لیے جانے کی رپورٹس پر مسلسل تشویش ہے'۔

اس علاقے کے دورے کے بعد واپس آنے والے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 'ہم انفرادی حقوق کے احترام، قانونی طریقہ کار کی تعمیل اور ایک جامع مذاکرات پر زور دیتے ہیں'۔

خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-بھارت کشیدگی کم کی جائے، ٹرمپ کی مودی سے گفتگو

اس ضمن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بذریعہ فون بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے بات کی اور دونوں رہنماؤں کو کشیدگی کم کرنے پر زور دیا۔

بھارت کا ذکر کرتے ہوئے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار نے کہا کہ ’ہم قانونی کارروائی اور جامع بات چیت کے لیے ہر فرد کے حقوق کا احترام کرتے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم بھارت کے خدشات سے آگاہ ہیں لیکن اس بات پر زور دیتے رہیں گے کہ جتنی جلد ممکن ہو خطے میں صورتحال معمول پر لانے کے لیے کام کیا جائے۔'

مزید پڑھیں: پاک-بھارت وزرائے اعظم سے بات چیت مثبت رہی، امریکی صدر

اس کے ساتھ واشنگٹن نے دونوں جوہری طاقتوں بھارت اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ مسلم اکثریت کے حامل پہاڑی خطے کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے براہِ راست بات چیت کی جائے۔

اس سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر کی 'خطرناک' صورتحال پر ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیش کش کردی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے بات چیت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر دیرینہ، پیچیدہ اور حل طلب مسئلہ ہے اور ہم پاکستانی اور بھارتی قیادت سے رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-بھارت کشیدگی کم کی جائے، ٹرمپ کی مودی سے گفتگو

ساتھ ہی امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'کشمیر ایک بہت پیچیدہ جگہ ہے، آپ کے پاس ہندو ہیں اور آپ کے پاس مسلمان ہیں لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ ایک ساتھ اچھے سے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں ثالثی کے لیے اپنی بھرپور کوشش کروں گا'۔

مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی

یاد رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کو آئین میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور اس غیر آئینی اقدام سے ایک روز قبل ہی وادی میں کرفیو نافذ کردیا تھا جبکہ اس کے پیشِ نظر مزید کئی ہزار فوجی اہلکاروں کو بھی وادی میں تعینات کردیا گیا تھا۔

بھارتی حکام نے اس فیصلے کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت سے بچنے کے لیے کشمیر میں مواصلاتی روابط بھی مکمل طور منقطع اور نقل و حرکت پر اب تک سخت پابندی عائد کر رکھی ہے۔

مذکورہ فیصلے کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں کم از کم 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جن میں سیاسی رہنما و کارکنان، حریت پسند، احتجاجی مظاہرین اور صحافی بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر پر مودی سے بات کروں گا، ڈونلڈ ٹرمپ

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو خط بھی ارسال کیا تھا، پاکستان کے مطالبے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر غور کے لیے تاریخی مشاورتی اجلاس گزشتہ روز طلب کیا تھا جبکہ پاکستان کے اس مطالبے کی چین نے بھی حمایت کی تھی۔

یہ 50 سال میں پہلا موقع تھا جب خصوصی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تنازع پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا جو بند کمرے میں منعقد ہوا اور اس میں شرکا کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی تھی۔

علاوہ ازیں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے جاری کرفیو اٹھایا جائے جس کے باعث پوری وادی میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہیں۔

خیال رہے کہ او آئی سی کے جنرل سیکریٹریٹ نے جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی محدود کرنے اور عید کے موقع پر بھی مکمل لاک ڈاؤن اور اجتماعات کی اجازت نہ دے کر مسلمانوں کو ان کی مذہبی روایات پر عمل سے روکنے کی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اس کے ساتھ انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک مرتبہ پھر بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور معیارات کے مطابق سلوک کیا جائے۔