پاکستان

بھارتی آبی جارحیت: 'پاکستان اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے تمام آپشنز استعمال کرے گا'

معاہدے کے تحت بھارت غیر معمولی پانی کے اخراج پر اطلاع دینے کا پابندہے تاہم وہ اس پر عمل نہیں کررہا، وفاقی وزیر آبی ذخائر

اسلام آباد: 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارتی رویے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام آپشنز استعمال کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر آبی ذخائر فیصل واڈا نے اپنے بیان میں نشاندہی کی کہ بھارت معاہدے کے تحت غیر معمولی پانی کے اخراج کے حوالے سے پاکستان کو اطلاع دینے کا پابند ہے تاہم وہ متعدد مرتبہ درخواست دیے جانے کے باوجود معاہدے پر عمل نہیں کر رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمشنر برائے انڈس واٹرز، جو معاہدے کے تحت بھارت سے بات چیت کا ذریعہ ہیں، نے اپنے بھارتی ہم منصب کو بین الاقوامی وعدوں کو پورا نہ کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ '1960 کا معاہدہ پاکستان اور بھارت سمیت خطے میں امن کا ذریعہ ہے تاہم اگر بھارت اپنے اعتراضات پورے نہیں کرے گا تو معاہدہ پاکستان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے میکانزم فراہم کرتا ہے'۔

مزید پڑھیں: بھارت کی طرف سے آنے والے پانی کے باعث سیلاب کا خطرہ

فیصل واڈا کا کہنا تھا کہ حکومت معاہدے میں فراہم کیے گئے تمام آپشنز پر غور کرے گی، آرٹیکل 12 کے تحت نہ ہی بھارت اور نہ ہی پاکستان خود سے معاہدے کو توڑ سکتا ہے حتیٰ کہ اس میں دونوں ممالک نے مل کر تبدیلی نہ کی ہو۔

پاکستان کے مستقل کمشنر برائے انڈس واٹرز سید مہر علی شاہ نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے معاملے پر بارہا تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ بھارت سیلاب سے متعلق معلومات کے تبادلے، کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے دورے، سالانہ اجلاس اور نئے منصوبوں کے حوالے سے معلومات فراہم کیے جانے سے متعلق اپنے وعدوں سے انحراف کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آبی مسائل پر بھارت سے بات چیت کا پہلا ذریعہ ہونے کی حیثیت سے وہ اگلا قدم اٹھانے سے قبل ان تمام امور پر لکھے گئے خط کا ریکارڈ جمع کر رہے ہیں۔

معاہدے کے تحت بھارت کو غیر معمولی سیلاب کے پیش نظر پاکستان کو معلومات فراہم کرنی ہوں گی جس پر اس نے 1988 کے سیلاب تک عمل کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-بھارت کشیدگی کم کی جائے، ٹرمپ کی مودی سے گفتگو

سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے پیش نظر دونوں جانب سے 1989 میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس میں پانی کے بہاؤ میں یکم جولائی سے 10 اکتوبر تک کسی بھی قسم کے اضافے کے حوالے سے معلومات ہر سال فراہم کر رہا تھا۔

دونوں جانب سے مقام، طرز، ذخائر میں اندراج و اخراج وغیرہ کی معلومات کے تبادلے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا جس پر بھارت نے 2018 میں معاہدے کے سالانہ تجدید تک عمل کیا۔

تاہم نئی دہلی نے اسلام آباد کی جانب سے رواں سال مارچ سے جولائی تک اس معاہدے کی تجدید اور دیگر معلومات کے حوالے سے متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا تھا۔

جولائی میں بھارت کی جانب سے موصول ہونے والے جواب میں کہا گیا تھا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے تحت غیر معمولی سیلاب کے حوالے سے ہی معلومات فراہم کرے گا۔

بعد ازاں بھارت نے دریائے ستلج میں بغیر نوٹس کے پانی چھوڑ دیا اور اس پانی کے بہاؤ کو 'غیر معمولی' قرار نہیں دیا۔

سید مہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اس صورتحال کو معاہدے پر عمل درآمد کے خلاف سمجھتا ہے کیونکہ 3 دہائیوں سے جاری عمل، جس سے بھاری نقصانات سے بچا گیا تھا، کو توڑا گیا ہے'۔

پاکستان نے متعدد مرتبہ ان کی جانب آنے والے دریاؤں پر 6 منصوبوں، کرتھائی ایک اور 2، ساول کوٹ، کیرو، برسار اور جپسا کی تعمیرات کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور اس کی معلومات طلب کیں۔

معاہدے کے تحت بھارت ان دریاؤں پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور ڈیمز کی تعمرات سے 6 ماہ قبل پاکستان کو معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے۔

بھارت متنازع کشن گنگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر پاکستانی ماہرین کو دورہ کرانے کا بھی پابند ہے جس پر وہ متعدد درخواستوں کے باوجود 2014 سے انکار کر رہا ہے۔

دونوں جانب سے روایت کے مطابق مستقل انڈس کمیشن کے سالانہ 2 اجلاس کرنے ہوتے ہیں تاہم بھارت نے اسے کم کرکے ایک اجلاس فی سال کردیا ہے جبکہ رواں سال مئی میں طے شدہ یہ اجلاس بھارت کے رویے کی وجہ سے اب تک نہیں ہوسکا ہے۔