پاکستان

روڈ سیفٹی: پاکستانیوں کیلئے چند مفید مشورے

ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں پر 98 فیصد حادثات لوگوں کی غفلت کی وجہ سےہوتے ہیں اور پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہے۔

گزشتہ کچھ سال سے پاکستان میں ٹریفک حادثات بڑھنے کی وجہ سے یہ صحت عامہ کا ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور ہر سال ہزاروں خاندان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وجہ سے برباد ہو رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا 27,582 افراد سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں جاں بحق جبکہ 50 ہزار لوگ شدید زخمی اور ہزاروں افراد عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔

ان ٹریفک حادثات کی وجہ سے ملکی معیشیت کو بھی ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں جہاں ٹریفک حادثات بڑھتے جا رہے ہیں، وہیں ملک بھر میں کسی منصوبہ بندی کے بغیر گاڑیوں کے اضافے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور یہ اہم مسئلہ پاکستان سمیت تقریبا ہر ترقی پذیر ملک میں بڑھتا جا رہا ہے، جس سے حادثات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی اداروں کے مطابق ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں 15 لاکھ لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں جبکہ ہر 24 سیکنڈز میں دنیا میں کسی نہ کسی جگہ کوئی نہ کوئی ٹریفک حادثہ رونما ہوتا ہے.

حیران کن بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں 16 فیصد گاڑیاں موجود ہیں جبکہ وہاں ٹریفک حادثات کا تناسب 44 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں گاڑیوں کا تناسب 44 فیصد ہے اور ٹریفک حادثات کا تناسب 16 فیصد ہوتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق کم ترقی یافتہ ممالک میں 98 فیصد حادثات کے ذمہ دار وہاں کے لوگ ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کی غفلت کی وجہ سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں حادثات کی بڑی وجہ 'موٹرسائیکل کی سواری' ہے، ہمارے ہاں موٹر سائیکل خریدنا انتہائی آسان ہو چکا ہے لیکن اسکے بہتر استعمال سے موٹر سائیکل ڈرائیورز حضرات نا واقف ہیں، اس کے ساتھ ان ڈرائیورز حضرات کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دورانِ ڈرائیورنگ ہیلمیٹ کا استعمال نہ کرنا بھی ٹریفک حادثات کی ایک اہم وجہ ہے.

مختلف سماجی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق موٹر سائیکل کی وجہ سے 60 سے 70 فیصد حادثات رونما ہوتے ہیں اور اگر موٹرسائیکل چلانے والا یا اس کے ساتھ سفر کرنے والا شخص تیز رفتاری کے باعث گرجاتے ہیں تو 50 فیصد واضح امکانات ہیں کہ وہ جاں بحق یا شدید زخمی ہو جائیں۔

دوسری وجہ موٹرسائیکل سواروں کی جانب سے تیز رفتاری، موبائل فون کا استعمال، سگنلز کا توڑنا، غلط یو ٹرن کے ساتھ ساتھ اشاروں کی پیروی نہ کرنا جبکہ انڈیکیٹرز کا استعمال نہ کرنا بھی حادثات کی ایک اہم وجہ ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ریاست اہم کردار ادا کر رہی ہے، قانون کی پاسداری کروانا اور ایسے اصول و ضوابط کی تشکیل کرنا جس سے شہریوں کی زندگی متاثر نہ ہو، ترقی یافتہ ممالک ميں حکومتوں کی اولین ترجیح رہی ہے، مگر پاکستان میں دیکھا جائے تو ریاست کی جانب سے 'شہریوں کے تحفظ' کو سب سے نچلے درجے پر رکھا جاتا ہے جبکہ منتظمین کی توجہ سرحدوں کی حفاظت پر زیادہ مرکوز ہے، بہت سی وجوہات کی بنا پر ریاست پاکستان شہریوں کے تحفظ پر سرمایہ کاری کرنے میں بہت کم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔

ٹریفک حادثات کو روکنے یا انہیں کم کرنے کا آسان ترین حل اسی میں ہے کہ ریاست پاکستان کو بہترین حکمت عملی کے تحت ٹریفک حادثات کے حل کے لیے سوچنا تو ہوگا ہی لیکن اس کے ساتھ ایسے اصول و ضوابط بھی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں پر شہریوں کے رویوں کو تبدیل کیا جا سکے کیونکہ اگر اصول و ضوابط نہیں ہوں گے اور انتشار ہوگا تو یہ انتہائی مشکل ہے کہ ہم ٹریفک حادثات سے وابستہ مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکیں۔

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی حادثات کا بڑا سبب ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست پاکستان روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین کو نافذ کرنے کے لیے نہ صرف موثر اقدامات اٹھائے بلکہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے 2 قدم آگے سوچ کر یہاں کا نظام بہتر بنائے، ریاست اور اس کے اداروں کو ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن سے ٹریفک قوانین کی پیروی ہو سکے، اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک نگرانی کا مؤثر نظام بھی بنانا ہوگا جس میں کیمروں اور مائکرو چپ کا استعمال عام کرنا ہوگا، جرمانے کی شرح زیادہ کرنی ہوگی، کیوں کہ بھاری جرمانوں کی مدد سے ہی ڈرائیورز حضرات قانون کے پاسدار بنیں گے۔

حکومت کو ملک میں قانون کی سختی سے ایسا نظام پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ ہو۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک حادثات کے مسئلے پر شہریوں کے تحفظ کا خیال کرے۔

ریاست پاکستان کا اس مسئلے پر باشعور ہونا اب بہت ضروری ہو چکا ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ شہریوں کے سماجی اور صحت کے مسائل کے تدارک کو یقینی بنائے۔

ساتھ ہی حکومت کو چاہیے کے وہ ڈرائیورز کو باقاعدہ تربیت دیں تاکہ ان کے ساتھ باقی لوگوں کے جان و مال کو محفوظ بنایا جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایسا رویہ بھی اپنانا ہوگا کہ عوام ان کے ساتھ مثبت تعاون کے لیے کوشاں ہو اور ملکی نظام بہتر سمت کی جانب گامزن ہو سکے۔


لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی آف اسلام آباد کے شعبہ سماجیات کے چیئرمین ہیں، وہ پاکستان میں سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، جہاں وہ سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں، وہیں وہ ان کے حل کی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔

ان سے zaman@qua.edu.pk پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔