مقبوضہ کشمیر میں اسکولز کھلنے کے باوجود بچے غیر حاضر، خوف کی فضا برقرار
مقبوضہ کشمیر میں 2 ہفتے سے جاری کرفیو میں پابندیوں میں نرمی کے باوجود خوف کی فضا برقرار ہے اور اسکولز کھلنے کے باوجود بچے غیر حاضر رہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو میں نرمی کے بعد سری نگر میں 190 پرائمری اسکولز کھل گئے۔
تاہم والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بچے اسکول نہیں جائیں گے جب تک موبائل فون سروسز بحال نہیں ہوجاتیں اور وہ بچوں سے باآسانی رابطہ نہ کر سکیں۔
سری نگر کے ضلع بٹامالو میں واقع اسکول کے 2 طلبا کے والد گلزار احمد نے کہا کہ ’ہم اپنے بچوں کی زندگی کو خطرے میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟‘
مزید پڑھیں: سری نگر میں نقل و حرکت پر دوبارہ پابندی عائد، جھڑپوں میں 24 افراد زخمی
انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ 2 ہفتوں میں بھارتی فوجیوں نے بچوں کو گرفتار کیا ہے اور کئی بچے جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں‘۔
گلزار احمد نے کہا کہ ’ہمارے بچے اپنے گھروں میں محفوظ ہیں، اگر وہ اسکول جائیں گے تو ان کی حفاظت کی ضمانت کون دے سکتا ہے؟‘
اس حوالے بھارتی حکام سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہوسکا تاہم ماضی میں بھارتی حکومت گرفتاریوں کی رپورٹس مسترد کر چکی ہے۔
رائٹرز کے صحافیوں نے سری نگر کے 2 درجن اسکولوں کا دورہ کیا، کچھ اسکولوں میں عملہ کم تعداد میں موجود تھا جبکہ کلاس رومز ویران تھے، دیگر اسکولوں کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔
پریزینٹیشن کنونٹ ہائیر سیکنڈری اسکول کے عہدیدار نے بتایا کہ اسکول میں کُل طلبا کی تعداد ایک ہزار ہے اور آج (19 اگست) صرف ایک طالبعلم حاضر تھا، جو بعد ازاں گھر واپس چلا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو برقرار، کچھ مقامات پر مواصلاتی نظام جزوی بحال
سری نگر میں سخت سیکیورٹی کے علاقے میں واقع برن ہال اسکول میں چند اساتذہ موجود اور تمام طلبا غیر حاضر تھے۔
ایک ٹیچر نے کہا کہ ’اس غیر مستحکم صورتحال میں طلبا کیسے اسکول آسکتے ہیں؟ حکومت ان چھوٹے بچوں کو توپوں کا نشانہ بنا رہی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال بہتر ہونے تک اسکول بند رہنے چاہیئں۔
خیال رہے کہ 17 اگست کو مقبوضہ کشمیر کے کچھ مقامات میں کرفیو میں نرمی کے بعد سے 24 گھنٹے تک 5 اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا، جس کے بعد گزشتہ روز سری نگر کے مختلف علاقوں میں نقل و حرکت پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی تھی۔
مظاہرین کی جانب سے بھارتی فورسز پر پتھراؤ کیا گیا تھا اور جھڑپوں کے دوران 24 افراد زخمی بھی ہوئے۔
یاد رہے کہ 5 اگست کو بھارت نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے وادی میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے میں موبائل، انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی نظام معطل کردیا تھا۔