پاکستان

کم عمر 'چور' کے قتل کو دہشت گردی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، پولیس

پولیس نے مزید 3 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے جس کے بعد گرفتار ملزمان کی تعداد 5 ہوگئی ہے، ڈی آئی جی ایسٹ

کراچی پولیس نے بہادر آباد میں شہریوں کے تشدد سے ہلاک ہونے والے کم عمر مینہ چور کے واقعے کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملوث افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق 7 بھی شامل کی جائے گی جبکہ مزید 3 افراد کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

ڈان کو ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے مزید 3 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے بعد گرفتار ملزمان کی مجموعی تعداد 5 ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان کو ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے جو کم عمر لڑکے پر تشدد کررہے تھے۔

عامر فاروقی نے کہا کہ ‘ہم دیگر ملزمان کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں’۔

یاد رہے کہ گزشتہ سب کراچی کے علاقے بہادر آباد کی کوکن سوسائٹی میں 16 سالہ لڑکے کو چوری کے الزام میں تشدد کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:کراچی: بہادرآباد میں تشدد سے کم عمر مبینہ چور ہلاک، وزیراعلیٰ کا نوٹس

اسٹیش ہاؤس افسر (ایس ایچ او) فیروز آباد اورنگ زیب خٹک کا کہنا تھا کہ کوکن سائٹی میں واقع گھر کے افراد کے بیان کے مطابق 2 مشتبہ شخص چوری کے غرض سے ان کے گھر میں داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک شخص فرار ہوگیا جبکہ دوسرے مشتبہ شخص کو گھر والوں نے پکڑ لیا، جس کے بعد علاقہ مکین جمع ہوگئے اور پولیس کے آنے سے قبل اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بعد ازاں لڑکے کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) منتقل کیا گیا جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی، جاں بحق نوجوان کی شناخت 16 سالہ ریحان ولد زہیر کے نام سے ہوئی تھی جو خداداد کالونی کا رہائشی تھا۔

ایس ایچ او اورنگ زیب خٹک کا کہنا تھا کہ لڑکے کے اہل خانہ کا مطالبہ ہے کہ گزشتہ روز گرفتار کیے گئے 2 ملزمان اور دیگر ملوث افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔

تفتیش کاروں نے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی شق 7 کو شامل کرنے کے حوالے سے بات کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں پی ٹی آئی سے وابستہ 'صحافی' قتل

اورنگ زیب خٹک کا کہنا تھا کہ پولیس نے واقعے کے بعد رات کو ہی گھر کے مالک اور اس کے پڑوسی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 316 کے تحت ایف آئی آر درج کردی تھی۔

خیال رہے کہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا میں کم عمر لڑکے کی ویڈیو بھی عام ہوئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔

ایس ایچ او نے سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذکورہ واقعے کی ہی ویڈیو ہے جس میں لڑکے کو رسی سے باندھا گیا ہے اور ایک گھر کے اندر تشدد کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی ویڈیو بھی بنائی جارہی ہے۔

متاثرہ خاندان کے دعویٰ کی ایس ایچ او اورنگ زیب خٹک نے تصدیق کی کہ کم عمر لڑکا ‘قصائی’ کا کام کرتا تھا لیکن ان کے ماضی کے ریکارڈ میں جرائم بھی شامل ہیں اور اس لڑکے کو بہادر آباد پولیس نے حال ہی میں چوری کے الزام میں دو مرتبہ گرفتار کیا تھا۔

اورنگ زیب خٹک کا کہنا تھا کہ مقدمہ پولیس کے ہاتھ میں آیا ہے اور قانون اپنا راستہ خود بنالے گا۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار ملزمان کو جسمانی ریمانڈ کے حصول کے لیے انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ پولیس ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق 7 شامل کرنے کی کوشش کرے گی اور یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اس کو دہشت گردی کے طور پر تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔