پاکستان

کابل دھماکا: دفتر خارجہ نے حملہ آور کے حوالے سے خبر کو مسترد کردیا

بعض میڈیا داعش کے دعوے کو جواز بنا کر پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کی بے بنیاد خبرنشر کررہے ہیں، ترجمان دفتر خارجہ
|

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کابل میں شادی کی تقریب میں خود کش بم دھماکے میں پاکستانی شہری کے ملوث ہونے سے متعلق خبروں کو مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں شادی کی تقریب کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 63 سے زائد افراد ہلاک اور 182 زخمی ہوگئے تھے۔

مزیدپڑھیں: کابل: شادی کی تقریب میں دھماکا، 63 افراد ہلاک

اس ضمن میں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ بعض میڈیا داعش کے دعوے کو جواز بنا کر پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کی خبریں نشر کررہے ہیں جسے قطعی طور پر مسترد کیا جاتا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بم دھماکے میں پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم کے پروپیگنڈا سے لاتعلق رہیں جس کا مقصد انتشار پھیلانا ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سربراہ کے بھائی کے قتل سے امن مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے، طالبان

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے دہشت گردوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے انتہائی موثر اور کامیابی کے ساتھ اقدامات اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسی جذبے کے تحت خطے اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ہی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مسجد میں ہونے والے حملے میں موجودہ طالبان سربراہ کے بھائی کو قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد طالبان کی جانب سے بیان جاری ہوا تھا کہ افغان امن عمل کے تناظر میں امریکا کے ساتھ مذاکرات ختم نہیں ہوں گے۔

واضح رہے کہ کابل میں شادی کی تقریب میں بم دھماکا ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکا اور طالبان کے درمیان حتمی مذاکرات میں پیش رفت کی توقعات ظاہر کی جارہی تھیں۔

مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کے طالبان سے فیصلہ کن مذاکرات شروع ہونے کا امکان

ادھر اگر طالبان کی بات کریں تو وہ اکتوبر 2001 سے افغانستان میں امریکا کے خلاف مسلسل لڑ رہے ہیں جبکہ گزشتہ برس دونوں فریقین کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوا تھا اور اب تک مذاکرات کے آٹھ دور ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ افغانستان میں اس وقت امریکا کے تقریباً 14 ہزار فوجی موجود ہیں جو کارروائیوں کے علاوہ افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت کررہے ہیں۔

افغانستان میں جاری طویل جنگ میں ہزاروں شہریوں سمیت جنگجو اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں، جس کے حوالے سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی رپورٹس میں کئی مرتبہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکی فورسز کی بمباری سے سب سے زیادہ بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔