اسپین کے نظامِ صحت کو میرا سلام


2008ء میں ‘سب پرائم مورگیج بحران‘ کے باعث پیدا ہونے والے عالمی اقتصادی بحران کے سنگین نتائج دنیا بھر میں سماجی شعبہ جات کو بھی بھگتنا پڑے، اور ایسا ہونا ہی تھا کہ حکومتوں نے بینکوں کو سہارا دینے کی خاطر اپنے خزانے سے اربوں ڈالر کے پیکج فراہم کیے تھے۔ دوسری طرف معیشتیں تیزی سے سکڑتی جا رہی تھیں اور خساروں میں زبردست اضافہ ہو رہا تھا۔
وہ مغربی ممالک جنہیں اپنی عوامی خدمات کے معیار پر ناز تھے انہیں صحت، تعلیم اور دیگر سماجی خدمات کے شعبوں کے بجٹ میں ڈرامائی انداز میں کٹوتیاں کرنا پڑیں۔ صورتحال یہ تھی کہ برطانیہ کی وہ نیشنل ہیلتھ سروس جسے کسی وقت میں ترقی یافتہ ممالک حسد بھری نظروں سے دیکھتے تھے اس کی کوتاہیوں کی شکایات روز کا معمول بن گئیں۔
الٹراساؤنڈ جیسا عام سا ٹیسٹ کروانے کے لیے بھی مہینوں کا انتظار معمول بن گیا تھا، اور اگر ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین جیسا کوئی ’مہنگا‘ ٹیسٹ مطلوب ہوجائے تو پھر آپ کا خدا ہی حافظ ہو۔ اپنی باری کا انتظار کرنے والے مریضوں کی فہرست اس قدر طویل تھی کہ آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ یا تو قدرت مہربان ہو کر آپ کا خود ہی علاج کردے گی یا پھر سوائے خدا کے پاس جانے کے اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
پریشان ڈاکٹرز کئی کئی ماہ تک علامات کی سنگینی کو گھٹانے کی کوشش کرتے کیونکہ وہ بیماری کا علاج شروع کرنے کے لیے طبی ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کرتے جس کی تصدیق مریض میں ہونے والی علامات سے ہی کی جاسکتی تھی۔
گزشتہ کئی برسوں سے اسپین میں لوگ حکومت کی جانب سے صحت کے شعبے میں بجٹ کٹوتی کی ہر ایک کوشش کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرے کرتے چلے آئے ہیں، یہاں تک کہ کنسلٹنٹس (جن میں سے ایک میری اہلیہ کا بھائی بھی ہے) ہسپتالوں میں اپنی شفٹ مکمل کرتے ہیں اور سیدھا سڑکوں پر جاکر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوجاتے ہیں۔
چلیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اسپین کے شہریوں کی جانب سے صحت عامہ کی خدمات کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کے خلاف بھرپور انداز میں اٹھ کھڑے ہونے میں، مَیں ان کا متعرف کیوں ہوں۔
گزشتہ ماہ، ہم نے شمال مغربی اسپین کے خطے گلیشیا میں ہفتہ بھر چھٹیاں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ خطہ اپنی چٹانی زمین، فطری خوبصورتی اور لذیذ کھانوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔
ڈیڑھ دن کے سفر کے بعد ہم ’ربیلا دیل ساکرا‘ نامی چھوٹے سے گاؤں پہنچے جو ہمارے شہر سے تقریباً 900 کلومیٹر دُور واقع ہے۔ وہاں ہم نے پہاڑی کے ڈھلان پر واقع چھوٹے اور سادہ سے ہوٹل میں چیک اِن کیا۔ اس ہوٹل سے چند سو میٹر نیچے ایک تیز بہتی ندی کا شاندار نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔
اگلے دن ہم نے اس وادی کے نظارے دیکھے اور ہائیکنگ کی جس کے بعد ہم ہوٹل پہنچ کر پُرسکون شام میں محو ہوگئے۔ وہاں ندی میں بہتے پانی کی تسکین بخش آواز نیند دلانے والی کسی لوری سے کم نہ تھا۔ یہ تو تھیں وہاں بتائی گئی چھٹیوں کی تھوڑی سی اچھی یادیں۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@