عمران خان اقتدار کی کھڑی چٹان تو چڑھ گئے لیکن۔۔
اقتدار کی کھڑی چٹان چڑھنے کی برسوں پر محیط کوششیں بالآخر رنگ لے لائیں اور عمران خان نے اپنے دوستوں کی تھوڑی بہت مدد کی بدولت اسے سَر کر ہی لیا۔
لیکن اب جبکہ وہ اقتدار کے اعلیٰ منصب پر براجمان ہوچکے ہیں تو کیا خان صاحب واقعی سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت رنگ لا چکی ہے؟ وہ کئی ایسے عناصر میں گِھرے دکھائی دیتے ہیں جو ان کے بیانات اور اعلانات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور اب ان کے پاس عملی قدم اٹھانے کے لیے بہت ہی کم آزادی بچی ہے۔
ایک سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کا دیوالیہ پن ہے، یہاں تک کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے باوجود بھی ملکی خزانے میں اتنا دھن نہیں کہ وہ اپنے وعدہ وفا کرسکیں۔ چنانچہ ان کے لاکھوں نوجوان بے روزگار حامیان کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے مزید انتطار کرنا ہوگا، جس کا عمران خان نے ان سے وعدہ کیا تھا۔
اگلی رکاوٹ کا تعلق اسی عنصر سے ہے جو ان کا بڑا سہارا بھی ہے، یعنی خارجہ پالیسی اور معیشت کے اہم معاملات میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا غالب عمل دخل۔ یہی نہیں بلکہ یہ مقامی سیاست کی لغام بھی اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے نظر آتی ہے۔ ان کے اس متحرک عمل کے باعث وزیرِاعظم کا کردار تنگ سے تنگ تر ہوچکا ہے۔
حالیہ دورہ واشنگٹن کو بھلے ہی کامیاب قرار دیا جارہا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو اس وقت افغانستان میں اپنی 18 سالہ موجودگی ختم کرنی ہے جس کے لیے انہیں پاکستان کی مدد درکار ہے۔
حال ہی میں افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ امریکیوں کو ان کی ساکھ مجروح کیے بغیر باہر کا راستہ دکھایا جائے گا اور جب تک انخلا کا عمل پورا نہیں ہوجاتا تب تک ظاہر ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اگرچہ ایسا نہیں کہ بش-مشرف دور زندہ ہوجائے گا اور اس دور کی طرح ہم پر زبردست مالی مہربانیوں کا ریلا بہنے لگے گا، بلکہ اس بار شاید محض شیریں لفظوں کی بھرمار سے ہی کام چلایا جائے گا۔
ہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ افغان تنازع کے دوران بچ جانے والا استعمال شدہ اسلحہ ہماری جھولی میں ڈال دیا جائے کیونکہ ویسے بھی ہتھیاروں کو اپنے ساتھ امریکا لے جانا مہنگا پڑے گا جبکہ انہیں پاکستان کے حوالے کرنے میں زیادہ خرچہ نہیں ہوگا۔ حالانکہ ہمیں اس وقت پیسوں اور امداد کے سلسلے کو بحال کرنے کے لیے کانگریس کی حمایت درکار ہے اور بظاہر ایسا ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیں دکھائی دیتے۔
وعدہ اور وفائے وعدہ کے درمیان حائل خلیج میں عمران خان اکیلے نہیں ہیں بلکہ برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن بھی اپنے ملک کے کونے کونے میں جاکر صحت سے لے کر زراعت تک ہر شعبے میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم نو ڈیل بریگزٹ کے باعث پیدا ہونے والے ممکنہ مالی بحران کو مدِنظر رکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ وعدے غیر اعلانیہ انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔