نقطہ نظر

افسانہ: مہ جبیں

ابھی ہماری تکرار جاری تھی کہ چھوٹو آرڈر لینے آگیا۔ میں نے اپنی سابقہ محبوبہ سے پوچھا ‘کیا کھاؤ گی؟’ بولی، تمہیں!’

ملے تو ہم اس لیے تھے کہ کچھ کہہ سُن لیں۔ اپنی اور ان کی کارگزاری کہ بِن ایک دوجے روز و شب کے میلے میں، 4 اُن کے اور 3 ہمارے چشم و چراغ کے ساتھ زندگی کی ڈور اب تک مضبوط ہے، کیسے ہے؟

اور پھر ملے تو ہم اس لیے تھے کہ ہم بِن گلاب کے پھول کو مرجھانا تھا، چودہویں کے چاند کو گہنانا تھا، میری بھی کچھ کچھ آنکھوں میں موتیا اترنا تھا، نہیں اترا۔۔ کیوں؟

ملے تو ہم اس لیے تھے کہ اتنے ماہ و سال بیت گئے، بیتتے گئے، تو وہ جو عشق تھا جسے جذبات کی لو پر سینچا تھا، وہ اتنی منزلوں بعد اب کسی 'اور' سے ہونے والے بچے پال رہا ہے۔ تو یہ کیسے ہے؟

تو ہم مل رہے تھے، آمنے سامنے تھے، اسی گھٹیا سے جوس کارنر میں جس میں ہم ملتے تھے تب بھی وہ گندا سا پردہ جو 'ہم جیسوں' کی پردہ پوشی کرتا تھا، آج بھی تھا، جھول رہا تھا، اس کی عزت پر کوئی آنچ نہ آسکی تھی۔ وہی اسٹول تھے جو مزید خستہ ہوچکے تھے اور کچھ ہمارے بوجھ سے زمین پر تھے۔

دیواروں پر جابجا عشقیہ جملے کھُدے تھے جن میں ہم جیسے کئی جوڑوں کا درد تھا۔

ہم دونوں نے اپنی محبت کا ثبوت تلاش کرنے کی کوشش میں آنکھوں سے کالی پڑی دیواروں کا وِرد کیا مگر اتنے میں چھوٹو آگیا اور آکر میلی اور چکنی ٹیبل صاف کرنے لگا۔ تو لمحہ بھر کو نظروں کے حصار میں صرف وہ خستہ حال ٹیبل رہ گئی جو یقیناً پرانی تھی، ہماری عمر رسیدہ جسموں کی طرح بوسیدہ کہ جس پر ہم دونوں کہنیاں ٹکا کر ایک دوجے کے ہاتھ تھامے مستقبل کے عہد و پیمان باندھتے تھے، مگر آج اسے دیکھ کر ماضی کے یک جان دو قالب نے ایک ساتھ ہی ابکائی لی۔

میں نے سوچا ’ملنے کی جگہ تو رومانوی ہوتی۔’

اب جو میری نظر، منظورِ نظر پر ٹھہری تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، ‘پھول گوبھی کی طرح پھول گئی ہو۔’

تو اس نے اپنے ازلی بذلہ سنجی جواب دیا۔

‘تم نے بھی تو سر پر ہَل چلادیا۔’

محبوب کی ایسی کی تیسی۔ بے رنگ در و دیوار ہم پر قہقہہ لگانے لگے۔ ایک اکلوتے پیلے اور کالے پڑتے بلب نے جھرجھری لی۔

سالہا سال سے لگے مکڑی کے جالوں میں پھنسے حشرات الارض سوچنے لگے کہ یہاں اُمنگوں اور آرزؤوں کا خون کرنے کون آگیا۔

میں سٹپٹا گیا تھا اور اس بدبو دار کمرے میں لمحے بھر کو خاموشی چھاگئی جس میں صرف گھڑی کی ٹِک ٹِک ابھرنے لگی۔

‘تمہیں دیکھ کر اب کے دل کے تار بھی نہیں ہلے’، وہ بولی۔

‘تم بھی تو مہتاب سے بیگم آفتاب ہوگئیں’، میں نے ترکی بہ ترکی کہا۔

وہ بولی کہ ‘تم نے تو کہا تھا میرے بغیر مرجاؤ گے۔’

‘مَرا تھا، تمہارے بعد سیدھا اُس پر ہی مَرا تھا’، میں نے اطمینان سے جواب دیا۔

‘سرخاب کے پَر لگے ہیں ناں اس میں؟’ جل کر کہا گیا۔

‘تمہاری طرح نہیں ہے، انسان ہے وہ’، میں محظوظ ہوا۔

‘مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟’

ابھی ہماری تکرار جاری تھی کہ چھوٹو آرڈر لینے آگیا۔ میں نے اپنی سابقہ محبوبہ سے پوچھا ‘کیا کھاؤ گی؟’

‘تمہیں۔۔۔!’

‘میں تمہیں ہضم نہیں ہونگا، بہت چربی چڑھ گئی ہے۔’

‘صاحب!’ چھوٹو نے مجھے مخاطب کیا، ‘یہاں لوگ لڑنے نہیں، محبت کرنے آتے ہیں۔’

اس نے اپنے حساب سے جملہ بڑا بول دیا تھا۔

‘جب آپ اندر آئے تو میرے ابّا نے آپ کو پہچان لیا تھا۔ وہ کہہ رہا صاحب 20 سال پہلے آتا تھا۔’

یہ مقامِ فخر تھا، شرمندگی تھا یا اور کچھ، میں سمجھ نہیں سکا۔

‘میں کچھ نہیں کھاؤں گی۔’

‘کیوں، ڈائٹنگ پر ہو؟’ میں نے اس کے بھرے بھرے بازؤوں پر نگاہ دوڑائی۔

چھوٹو ہماری شکلیں دیکھنے لگا۔

‘یہاں دن میں کتنے لوگ آجاتے ہیں؟’

‘اس عمر کے جوڑے کو پہلی دفعہ دیکھا ہے صاحب۔’ اشارہ میری طرف تھا۔ ‘ورنہ چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں۔ ‘

اس کی معصومیت مجھے ذلیل کررہی تھی۔ الگ بات ہے کہ میں ہو نہیں رہا تھا۔

‘جاؤ ٹھنڈی بوتل لے آؤ۔’ میری محبوبہ نے بیزاری سے کہا۔

چھوٹو ہاتھ میں پکڑا کپڑا جھلاتا چلا گیا۔

‘تم اب بھی خوبصورت ہو۔’ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ہلکی ہلکی نمی تھی۔

‘واقعی؟’

وہ مسکرائی اور میں نے دیکھا کہ 20 سال پہلے اس کے مسکرانے سے پڑنے والا کنواں ڈمپل بھر چکا تھا۔ عمرِ رواں کے ایک ایک لمحے نے صحرا کے کسی گڑھے کی مانند اس کنویں کو ریت کے ذروں سے بھر دیا تھا اور اب وہاں صرف بگولے چلتے تھے، ریت کے بگولے، فکرِ شوہراں و گڈ و ببلو کے بگولے۔

‘خاموش کیوں ہو،’ اس نے مجھے سوچ میں غرق دیکھ کر اشتیاق سے پوچھا۔

‘تمہاری مسکراہٹ ملکہ الزبتھ کی دادی سے ملتی ہے۔’

‘تمہاری نظر دادیوں پر بھی ہے،’ زور پَر، پر تھا۔

میری خفت چھوٹو کے اسی وقت بوتل سے لے آنے سے مٹ گئی۔

‘پیو،’ اس کی طرف بوتل کھسکائی۔

‘2 بوتل کے پیسے ادا کرنے کے قابل ہوگئے؟’

‘کیا مطلب۔‘ میں واقعی گڑبڑا گیا۔

‘پہلے تو ایک بوتل میں 2 اسٹرا ڈال کر پینے کو محبت کہتے تھے۔’

کاٹ دار لہجے پر میرا قہقہہ بوسیدہ کمرے میں گونج پڑا۔

اس کی بوتل جلد ہی خالی ہوگئی۔

‘اب مجھے چلنا چاہیے۔’

میں اسے روکنا چاہتا تھا لیکن آج کی گفتگو میں محبت کا جو خون ہوا تھا اس کے بعد یہ چھابڑی مزید قربت کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ میں سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ نہ جانے کتنے لمحے بیت گئے۔

میں نے چونک کر اپنی بوتل کو دیکھا جس کی گیس اُڑگئ تھی۔

‘صاحب!’ چھوٹو نے میرا کاندھا ہلایا۔ ‘کیا دیواروں سے بات کر رہے ہو؟’

‘ہوں۔۔۔’

‘یہ جلدی سے خالی کرو۔ ٹھنڈی پینی نہیں تھی تو منگوائی کیوں تھی۔’

بوتل واقعی گرم ہوچکی تھی اور ٹیبل پر پانی پھیل چکا تھا۔ سامنے ہی ایک خالی بوتل رکھی تھی جس پر میری نظر جم گئی۔

جیب سے سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبائی اور یہ سوچتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھ گیا کہ سامنے والی پر کرسی پر کون بیٹھا تھا۔

زید عفان

لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی سے فارغ شدہ سول انجئنیر ہیں۔ کرکٹ، سیاست، سیاحت اور فوٹوگرافی میں دلچسپی ہے جبکہ لکھنے لکھانے کا شوق بھی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔