دنیا

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود بھارت مخالف مظاہرے

حالات اب بھی مشکل ہیں، ہماری زندگیاں خار دار تاروں اور چیک پوائنٹس پر پھنسی ہوئی ہیں، کشمیریوں کا موقف

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیث کی منسوخی کے ایک ہفتے بعد وادی میں کرفیو میں معمولی نرمی کی گئی جہاں دکانوں میں عوام کی بڑی تعداد اشیا خورد ونوش کے حصول کے لیے پہنچی جبکہ ہزاروں افراد نے مسلح فورسز کی موجودگی میں بھارت مخالف مظاہرہ کیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شہریوں کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجیوں کی کثیر تعداد کو سری نگر سمیت اہم شہروں کی گلیوں میں بھی تعینات کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جانب سے گزشتہ روز جمعے کی ادائیگی کی اجازت دی گئی تو ہزاروں افراد نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا جن پر فورسز نے آنسو گیس اور فائرنگ کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز کی فائرنگ سے کئی افراد شدید زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں متعدد افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 6 مظاہرین شہید، 100 زخمی

خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 کو صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے متعلقہ بل پیش کردیا تھا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کے پیش نظر انٹرنیٹ، موبائل سروس اور ابلاغ کے دیگر ذرائع کو بھی معطل کر دیا گیا تھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ خطے میں امن و استحکام لانا بہت ضروری تھا جس کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

بھارتی حکومت کے بیانات کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بدستور جاری ہے جہاں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوچکی ہیں تاہم ہفتے کو کرفیو میں کسی حد تک نرمی کی گئی تو عوام کی بڑی تعداد گھروں سے باہر نکل آئی۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

خبرایجنسی کے مطابق کشمیریوں کا کہنا تھا کہ ‘ہم مزید بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن حالات اب بھی مشکل ہیں تاہم اس کو بہت قریب سے دیکھا جارہا ہے’۔

مقبوضہ کشمیر کے عوام کا کہنا تھا کہ ‘ہماری زندگیاں خار دار تاروں اور چیک پوائنٹس پر پھنسی ہوئی ہیں’۔

کرفیو میں نرمی کے بعد ایک شہری کا کہنا تھا کہ ‘بینک کی مشینوں میں پیسے ہی نہیں ہیں اس کے باوجود اس امید کے ساتھ لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ پیسے دستیاب ہوجائیں جبکہ عید کے لیے عوام کو کھانے پینے کی اشیا کی بھی ضرورت ہے’۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ عید کے موقع پر وادی کے عوام کے لیے کوئی پابندی نہیں ہوگی اور ان کے سامنے رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مودی کے اعلان کے باوجود حکام نے ایک روز بعد فیصلہ کریں گے کہ آیا مسلمانوں کے مذہبی تہوار کے لیے کرفیو میں نرمی کی جائے یا نہیں۔

کشمیریوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز جمعے کی نماز کے لیے جمع ہونے والے 80 ہزار سے زائد افراد نے بھارت کے خلاف نعرے لگائے تھے اور احتجاج کیا تھا جن پر پولیس نے آنسو گیس اور پیلٹ گنز کا استعمال کیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق ‘پولیس کی فائرنگ سے 12 افرادزخمی ہوئے تھے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے’۔

مزید پڑھیں:مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا امریکا سے ڈو مور کا مطالبہ

یاد رہے کہ 7 اگست کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کشمیریوں پر بھارتی فوج نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 6افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

سخت کرفیو اور بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی جیسے اقدامات کے باوجود سری نگر، پلوامہ، بارامولا اور وادی کے دیگر حصوں میں کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35اے کے خاتمے کے خلاف احتجاج کیا۔

تاہم احتجاج کرنے والے نہتے کشمیریوں پر قابض بھارتی فوج نے گولیاں، پیلیٹ اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے