پاکستان

خدیجہ صدیقی حملہ کیس کے مجرم شاہ حسین کی نظرثانی درخواست خارج

قتل اور اقدام قتل کے مقدمے میں فرق ہوتا ہے اور مارنے کی نیت سے ایک بھی زخم آجائے تو اقدام قتل کا کیس بنتا ہے، چیف جسٹس
|

سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس کے مجرم شاہ حسین کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

مجرم شاہ حسین کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خدیجہ اور شاہ حسین کے انتہائی قریبی تعلقات تھے تو کیسے ممکن ہے کہ خدیجہ نے حملے کے وقت مجرم کو نہ پہچانا ہو۔

انہوں نے کہا کہ خدیجہ کا ڈرائیور اور چھوٹی بہن بھی شاہ حسین کو جانتے تھے لیکن اس کے باوجود میرے موکل پر چھری کے 23 وار کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور وقوعہ کے 23 دن بعد شاہ حسین کا نام مقدمے میں شامل کیا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کے مطابق خدیجہ پانچ دن بعد بیان ریکارڈ کرانے کے قابل ہوئی جبکہ قتل اور اقدام قتل کے مقدمے میں فرق ہوتا ہے اور مارنے کی نیت سے ایک بھی زخم آجائے تو اقدام قتل کا کیس بنتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: خدیجہ صدیقی کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، مجرم گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ جو حملے کی نیت سے آئے وہ للکارتا نہیں جبکہ فیصلوں میں غلطی ہو تو درستگی کرکے خوشی ہوتی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے شاہ حسین کی 5 سال سزا کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے مجرم کی نظرثانی درخواست خارج کر دی۔

خدیجہ صدیقی حملہ کیس

یاد رہے کہ خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار کرکے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے جارہی تھیں۔

شاہ حسین واقعے کے وقت ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور اُس نے خدیجہ کے گاڑی میں سوار ہونے سے قبل ہی ان پر حملہ کرتے ہوئے ان پر 23 مرتبہ خنجر کے وار کیے جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا خدیجہ صدیقی کے حملہ آور کی رہائی پرازخود نوٹس

واقعے کے ایک ہفتے کے اندر ہی لاہور ہائی کورٹ میں ملزم کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کردیا گیا تھا جس کے بعد عدالت کے سامنے دوران سماعت شواہد پیش کیے گئے اور شاہ حسین کی شناخت یقینی بنانے کے لیے ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئی تھی۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ستمبر 2016 میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج کیے جانے کے باوجود 2 ماہ بعد شاہ حسین کو سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی۔

بعد ازاں 29 جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو 7 برس کی سزا سنادی تھی تاہم گزشتہ برس مارچ میں سیشن کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا کم کرتے ہوئے اسے 5 سال تک کردیا تھا جس پر مجرم نے دوسری اپیل دائر کردی تھی۔

سینئر وکیل کے بیٹے شاہ حسین نے دوسری اپیل سیشن عدالت کے 5 سال قید کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جس پر 4 جون 2018 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ ملزم کے حق میں سناتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: خدیجہ صدیقی کیس: لاہور ہائی کورٹ بار کی قرارداد پر چیف جسٹس برہم

بعد ازاں 5 جون 2018 کو سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قانون کی طالبہ پر چھریوں کے وار کرنے کے مقدمے میں بری ہونے والے ملزم کی رہائی کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

رواں سال 23 جنوری کو سپریم کورٹ نے مجرم شاہ حسین کی بریت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شاہ حسین کی گرفتاری کا حکم دیا، جس کے بعد پولیس نے مجرم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔