افسانہ: ’محبت اپاہج نہیں ہوتی‘
’یہ تمہارے لیے ہے۔‘ حیدر نے سرخ مخملی ڈبیہ ماہم کے آگے پھینک دی۔
ماہم نے سر اٹھا کر حیدر کی طرف دیکھا، وہ ڈبیہ کھولے بغیر بھی اندازہ کرسکتی تھی کہ اس میں کیا ہے؟
’کپڑے تبدیل کرو اور سو جاؤ۔‘ حیدر نے حکم صادر کیا۔ بیڈ سے تکیہ اٹھاکر وہ صوفے پر دراز ہوگیا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ گزشتہ 2 مہینے میں اس کی زندگی میں کتنی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ والد کے اچانک ایکسیڈنٹ اور موت نے اسے توڑ پھوڑ دیا تھا۔ دکھ کی اس گھڑی میں وہ بالکل اکیلا تھا۔
والد کے چہلم تک وہ ان کے تمام دوست احباب سے اچھی طرح واقف ہو گیا تھا جو شاکر صاحب کے ساتھ فیکٹری میں کام کرتے تھے اور تعزیت کے لیے حیدر کے پاس آئے تھے۔ ان میں فیکٹری کے مالک ریاض الدین بھی شامل تھے جو چہلم تک حیدر سے بارہا ملے۔ چہلم کے فوراً بعد ریاض الدین نے حیدر کو اپنے دفتر بلایا اور ایک فائل اس کے آگے رکھ دی۔
’بات یہ ہے برخوردار ،میں نے اکاؤنٹنٹ کو بلایا تھا تاکہ شاکر کے واجبات کا حساب کتاب کیا جائے۔ جو واجبات ہم نے ادا کرنے ہیں اس کی رقم تقریباً دو لاکھ روپے ہے جبکہ خود شاکر نے گزشتہ 2 برسوں میں 15 لاکھ کا قرضہ لیا ہے۔ وہ کچھ رقم تمہاری تعلیم کے لیے بطور قرض لے چکے ہیں۔‘ حیدر دم بخود ان کی بات سُن رہا تھا۔
’کیا تم 13 لاکھ روپے یکمُشت ادا کرسکتے ہو؟‘
’دراصل میری فیکٹری کچھ نقصان میں جا رہی ہے اور مجھے کچھ رقم کی فوری ضرورت ہے۔‘ ریاض الدین اپنے مہرے آگے بڑھا رہے تھے۔