ہمیں پائیدار شہر تعمیر کرنے ہوں گے


زلزلے اور سیلاب اس وقت ’آفات‘ کہلاتے ہیں جب ان کے باعث انسانوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ یہ واقعات قدرتی ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر تباہ کاریاں انسان کی تخلیق کردہ ہوتی ہیں۔ قدرتی واقعات کو روکنا تو ہمارے بس میں نہیں لیکن ممکنہ جانی و مالی نقصانات سے بچنے کی تیاری ضرور کی جاسکتی ہے۔
چند اہم رجحانات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ کچھ سنگین آفات وجود پذیر ہو رہی ہیں۔ جہاں قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں عالمی جنوب کو ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں درجہ حرارت اور شہری سیلاب کے رجحانات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ہمارے بڑے شہروں میں برستی موسلادھار برساتوں سے ہم پر حیرتوں کے پہاڑ نہیں ٹوٹنے چاہئیں لیکن حالیہ مون سون برساتوں کے دوران کراچی میں ایک درجن سے زائد افراد کی موت واقع ہوئی۔ آنے والے برسوں میں اس قسم کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اس چیلنج سے نمٹنے کی تیاری پکڑنا ضروری ہے۔
سب سے اہم یہ سوال ہے کہ اس طرح کی آفات سے زیادہ نقصانات کا خطرہ کن لوگوں کو ہوتا ہے۔ عمومی طور سب سے زیادہ خطرے کی زد میں غربا اور کنارے سے لگے لوگ ہوتے ہیں۔
نقل مکانی کرنے والے افراد بھی تباہ کاریوں کے خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ مقامی نقل مکانی پاکستان کی بنیادی آبادیات، معاشرے اور معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جو کسی نہ کسی صورت ملک کی نصف آبادی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شہروں کی طرف نقل مکانی اب تو بہت ہی عام ہوچکی ہے۔ زیادہ آمدن کمانے کا مواقع کی تلاش اور بہتر شہری خدمات سے متاثر ہو کر لوگ بڑی تعداد میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے شہر بڑھتی آبادی کا بوجھ سنبھالنے لیے مطلوبہ سہولیات سے عاری ہیں جبکہ اس قسم کے قدرتی واقعات سے نمٹنے کے لیے تو یہاں بالکل بھی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں ہیں۔ تو سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ جتنے زیادہ لوگ شہروں کی طرف نقل مکانی کریں گے اتنا زیادہ تباہ کاریوں کا خدشہ بڑھے گا، اور ہمارے شہروں کی کوئی تیاری نہیں ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ 2005ء کے زلزلے کے بعد سے ملک میں ریلیف کی فراہمی اور فوری ریسپانس کے انتظامات بہتر ہوئے ہیں۔
مختلف قدرتی واقعات کے بارے میں قبل از وقت وارننگ دینے کا سسٹم نقصان سے بچنے کا اہم ذریعہ ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے حال ہی میں بذریعہ ایس ایم ایس اردو میں موسم کے حوالے سے الرٹس بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ خطرے کی زد میں رہنے والے تمام افراد کو ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہ ہو لہٰذا مسجد میں اعلان کے ذریعے پیغام کو پہنچانے کے طریقہ کار بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ تباہ کاریوں کے دوران سب سے زیادہ خطرے کی زد میں رہنے والے افراد کے پاس اپنا تحفظ اور صحت کا خیال رکھنے کے لیے مطلوبہ معلومات، آگاہی اور سپورٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔
اگرچہ ہمارا ریلیف اور ریسپانس کا نظام تو بہتر ہوا ہے، لیکن تباہ کاریوں کے ممکنہ خطرات میں کمی لانے، قبل ازوقت تیاری اور مینجمنٹ کے معاملے میں اب بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ ایک قدرتی واقعے کو زبردست تباہ کاری میں تبدیل کرنے میں کمزور گورننس اہم کردار ادا کرتی ہے۔