پاکستان

چوہدری شوگر مل ہمیشہ منی لانڈرنگ کا گڑھ رہی، شہزاد اکبر

1990 کی دہائی میں چوہدری شوگر مل کے لیے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرض لیا جبکہ قرض کی رقم سے پہلے ہی مل بن چکی تھی، معاون خصوصی

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے شریف خاندان کا منی لانڈرنگ کا کاروبار ہے اور چوہدری شوگر ملز ہمیشہ سے منی لانڈرنگ کا گڑھ رہی ہے۔

اسلام آباد می پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1990 کی دہائی میں چوہدری شوگر ملز کے لیے 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) ڈالر کا قرض لیا، قرضہ بحرین میں لیا گیا اور سبسڈی آف شور کمپنی کے ذریعہ لی گئی جبکہ ابھی قرض کی رقم پاکستان نہیں پہنچی تھی کہ شوگر مل پہلے ہی قائم ہوگئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ قرض ایک خاص مقصد کے لیے تھا، جس سے شوگر مل کے لیے مشینری خریدنی تھی، تاہم شوگر مل خود بن جاتی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک سے کہا جاتا ہے کہ جو قرض بیرون ملک سے مشینوں کی خریداری کے لیے آرہا تھا اسے مل بننے کے بعد ہمارے اکاؤنٹ میں منتقل کردیں۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف سے تفتیش کیلئے نیب کی درخواست مسترد

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جب وزیراعظم کی طرف سے اسٹیٹ بینک سے یہ درخواست کی جاتی ہے تو اس پر مرکزی بینک رقم کی ذاتی اکاؤنٹ میں منتقلی کی اجازت دے دیتا ہے، جس کے بعد ڈیڑھ کروڑ روپے چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوجاتا ہے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ چوہدری شوگر ملز ہمیشہ سے منی لانڈرنگ کا گڑھ رہی اور سارا پیسہ یہی ڈالا جاتا رہا، جس کے بعد 2001 کے بعد اس معاملے میں اماراتی اور برطانوی شہری اس میں مرکزی شیئرہولڈرز ہوجاتے ہیں۔

'اس کے بعد یہ شیئرز 2008 میں مریم نواز کو منتقل کردیے جاتے ہیں لیکن اس عرصے میں کوئی رقم کی منتقلی نہیں ظاہر ہے نہ کوئی ادائیگی دکھائی جاتی ہے، جس کے بعد 2010 میں مریم نواز یہ شیئرز یوسف عباس کو منتقل کرتی ہیں'۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یوسف عباس سے یہ شیئرز ناصر لوتھا کو منتقل کیے جاتے ہیں، جس کے بعد 3 سال بعد یہ شیئرز دوبارہ حسین نواز کو منتقل کیے جاتے اور پھر یہ 11 ملین شیئرز نواز شریف کو منتقل کردیے جاتے ہیں اور جب 2016 میں پاناما آنے لگتا ہے تو پھر دوبارہ یہ شیئرز یوسف عباس کو منتقل کردیے جاتے ہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ایک کھیل ہے، جس میں یوسف عباس مجھے بیچارے لگ رہے ہیں اور یہ سارہ کھیل ان کے گرد گھوم رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب اس معاملے کو دیکھنا شروع کیا تو سب سے پہلے 50 فیصد شیئرز رکھنے والے ناصر لوتھا سے رابطہ کیا، جہاں انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی پاکستان میں شوگر مل بھی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 2010 سے 2013 تک ناصر لوتھا کے 11 ملین شیئرز تھے، تاہم جب ناصر لوتھا کو بتایا جاتا ہے تو وہ تحریری طور پر کہتے ہیں کہ ان کے کوئی شیئرز نہیں اور نہ ہی ان کا کبھی چوہدری شوگر مل یا پاکستان میں کسی دوسری شوگر مل کے ساتھ کوئی تجارتی تعلقات رہے۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز سے چوہدری شوگر ملز کے مالیاتی امور کی تفصیلات طلب

انہوں نے کہا کہ انہوں نے لوتھا کو بھی لوٹا ہے جبکہ ناصر لوتھا نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا ہے کہ 2010 میں شریف خاندان کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں 5 لاکھ ڈالر بھی دیے، تاہم کچھ ماہ بعد وہ لوگ واپس گئے اور کہا کہ آپ ہمیں ہمارے پیسے واپس کردیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ چوہدری شوگر مل میں پورا خاندان ہی ملوث رہا ہے، اس پر نواز شریف سے بھی تفتیش جاری ہے، تاہم قوم کو یہ بتانا ضروی ہے کہ تاثر ایسا دیا جاتا کہ یہ ایک کارپوریٹ خاندان ہے اور ان کا صاف کاروبار ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان کا منی لانڈرنگ کا کاروبار ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس کمپنی کو ہاتھ لگائیں وہاں یا تو ٹی ٹی یا لوتھا نکل آتا ہے، لہٰذا میری ان سے درخواست ہے کہ یہ تحقیقاتی اداروں سے تعاون کریں اور اگر کوئی منی ٹریل ہے تو انہیں دیں، ان تمام چیزوں کو بیان کرنا ہوگا۔