پارلیمان سے متفقہ قرار داد منظور، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی اقدامات کی مذمت
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور وادی میں کرفیو کے نفاذ سمیت بھارتی حکومت کے دیگر اقدامات کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخرامام نے ایوان کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی اقدامات کے خلاف مشترکہ قرارداد پیش کی۔
فخر امام نے ایوان میں قرار داد کا متن پڑھ کر سنایا۔
ایوان کا مشترکہ اجلاس بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرنے کے لیے غیرقانونی اقدامات کی متفقہ طور پر مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایوان، مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے ذریعے تبدیل کرنے کی مذمت کرتا ہے۔
قراداد میں بھارتی حکومت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بلااشتعال فائرنگ، شیلنگ اور آزاد کشمیر میں شہریوں پر کلسٹر بم کے استعمال جبکہ بھارتی زیر تسلط کشمیر میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی اور دیگر حالیہ اقدامات کی مذمت کی گئی۔
قرارداد میں زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ جموں و کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایجنڈا ہے لہٰذا بھارت کے غیر قانونی اقدامات جموں اور کشمیر کی متنازع حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کی تبدیلی اور اس کے ساتھ کشمیریوں سے متعلق آرٹیکل کے تحت مستقل شہریت، جائیداد کے حصول، روزگار تعلیم سمیت دیگر انسانی حقوق کو دبانے کے اقدامات کی مخالفت کی جاتی ہے۔
قرارداد میں زور دیا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو اس طرح کے اقدامات سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ایوان اس قرارداد کے ذریعے مطالبہ کرتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں قتل، تشدد، جبری گرفتاریوں، جبری گم شدگیوں، شہریوں پر پیلٹ گنز کے حملے اور ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بند کردے۔
مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی معطلی کو ختم کیا جائے، کرفیو اٹھایا جائے، گھیراؤ، سرچ آپریشنز ختم کیے جائیں اور بھارت کشمیری قیادت کو فوری رہا کرے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق کو بحال کیا جائے۔
قرارداد کے متن کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو دیکھا جائے اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل انکوائری کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے، ساتھ ہی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اعلیٰ سطح کا غیر معمولی اجلاس فوری طلب کرے اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر میں جبر کو ختم کرنے کے لیے مداخلت کرے۔
ایوان نے انٹر پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو) اور ورلڈ پارلیمنٹس پر زور دیا کہ وہ بھارتی پارلیمنٹ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی اور مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدامات کی سہولت کاری پر باز پرس کرے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرنے والے خطرات کی وجہ بننے والی غیر ذمہ دارانہ اور یک طرفہ کارروائیوں سے خبردار کرے۔
اس موقع پر ایوان میں موجود سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین نے اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر چین سے تبادلہ خیال ہوا ہے، وزیرخارجہ
قبل ازیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بھارتی فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے غیرقانونی اقدام کرتے ہوئے خود اس مسئلے کو انٹرنیشنلائز کردیا ہے اور اب ہم اس معاملے کو اقوام متحدہ لے کر جارہے ہیں جس کے حوالے سے چین سے تبادلہ خیال ہوا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے غیرقانونی اقدام کی پاکستان میں بھرپورمذمت کی گئی اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت نے بھی بھارتی اقدام کوتسلم نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ کردیا، مقبوضہ کشمیرکی حیثیت تبدیلی کے اقدام کی بھارت میں بھی مخالفت کی گئی اور بھارت کے اس اقدام سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر توجہ حاصل کرچکا ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی فیصلے نے تمام کشمیری دھڑوں کو متحد کردیا ہے اور مودی سرکارکے فیصلے کے بعد بھارت نواز کشمیری اپنے ماضی پر پچھتا رہے ہیں اور بھارت خود اقوام متحدہ میں کشمیریوں سے حق خودارادیت کاوعدہ کرچکا ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہم بھارت سے تجارت کو منسوخ کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کو وزیر اعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی دیکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں طویل مشاورت کے بعد 5 فیصلے کیے گئے جس میں پہلا فیصلہ یہ کہ ہم اس ایوان کی آرا اور دونوں طرف کے اراکین کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھارت سے سفارتی تعلقات کو محدود کررہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم فی الفور بھارت سے دو طرفہ تجارت منسوخ کررہے ہیں اور بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کمیٹی اس معاملے کو دیکھے گی۔
انہوں کہا کہ کشمیریوں کی امنگ اور پاکستان کے تاریخی موقف کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے چونکہ انہوں نے تمام حدود کو از سرنو کھول دیا ہے تو ہم نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کے اراکین میں ایک ہمارا پرانا اسٹریٹجک حلیف چین ہے جس کے ساتھ ہماری مشاوت ہوئی ہے اور ہورہی ہے جبکہ ہوسکتا ہے کہ اس قرار داد کے بعد چینی قیادت سے مزید مشاورت کے لیے بیجنگ سے رابطہ کروں۔
انہوں نے کہا کہ اس سال 14 اگست کو پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منائے گی، ہم اپنی آزادی کا دن ان کے حق خود ارادیت، جذبہ اور تحریک سے منسلک کررہے ہیں اور یک زبان ہو کر آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی گلی گلی، کوچہ کوچہ، کریہ کریہ گونج اٹھے گی کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ اجلاس میں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے بھی لگائے جس کا تمام اراکین نے پرجوش جواب دیا۔
’پاکستان، بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کردے‘
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ جب بھارت پاکستان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتا، اس کے نزدیک ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے تو پھر ان کے سفیر صاحب پاکستان میں کیا کررہے ہیں، ہمیں بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کردینے چاہئیں۔