کے الیکٹرک، ابراج گروپ کیلئے سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کراچی میں بارش کے باعث کے الیکٹرک کی نااہلی سے بچوں کی ہلاکت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کے الیکڑک، ابراج گروپ کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، یہ 5 پیسے کے بدلے 5 کروڑ روپے کا منافع لیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے کراچی کے معاملے میں لاپروائی برتنے پر حکام کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا ہے آپ نے عزت بیچی، ضمیر بیچا، جسم بیچ دیا، آپ زندہ کیسے ہیں؟ ایسے لوگ ہارٹ اٹیک سے مرجاتے ہیں، ہر وقت نشے میں رہتے ہیں'۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی، تجاوزات، پارکس پر قبضے اور کمرشل استعمال سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت سپریم کورٹ میں شاہراہ فیصل پر شادی ہالز، زمینوں پر قبضے، پولیس اور رینجرز چوکیوں سے متعلق معاملات زیر غور آئے۔
کراچی میں تجاوزات کا معاملہ
سماعت کے آغاز میں کراچی میں تجاوزات ہٹانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو گزشتہ حکم نامہ پڑھ کر سنانے کا حکم دیا اور کہا کہ ان تمام مسائل کی نشاندہی عدالت نے کی ہے حکومت سندھ کو پتہ ہی نہیں ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سٹی گورنمنٹ ناکام اور حکومت سندھ بھی ناکام، اب وفاقی حکومت آئی ہے یہ ناکام ہوئی تو کیا ہوگا۔
انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے جو حکم دیا تھا اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، عدالت نے حکم دیا کہ ایک گھنٹے کے اندر بتایا جائے کہ کیا عملدرآمد ہوا، ورنہ وزیر اعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیں گے۔
جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو حکم دیا کہ وزیر اعلی سندھ سے پوچھ کر بتائیں کہ عدالتی حکم پر کیسے عمل ہوگا۔
سماعت کے دوران جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ کراچی شہر 60 کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شامل تھا۔
تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کڈنی ہل پارک سے تجاوزات کے خاتمے سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت دیگر کی درخواستوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
اس دوران کے ایم سی کی جانب سے کڈنی ہل پارک کی بحالی کا نقشہ پیش کیا گیا اور سی ایم او نے بتایا کہ پی سی ون مکمل کرلیا گیا ہے پارک کی بحالی کے لیے 95 کروڑ روپے درکار ہیں، پارک کی بحالی کے لیے فنڈز چاہیں۔
جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مطلب ہے میں آپ کے لیے چندہ کروں، میں امریکا اور دیگر ممالک چندہ اکھٹا کرنے چلا جاوں۔
سماعت کے دوران درخواست گزار نے کہا کہ کڈنی ہل کے علاقے میں 62 ایکڑ زمین وفاق نے کراچی کوآپریٹو سوسائٹی کو الاٹ کی ہے، کراچی 1951میں پاکستان کا دارالحکومت تھا، وفاق نے یہ زمین کراچی کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی کو الاٹ کی، بعد ازاں یہ معاملہ ہائی کورٹ میں طے ہوا، جس میں 35 ایکڑ زمین پارک کے لیے اور 20 ایکڑ ہاوسنگ سوسائٹی کو دے دی گئی۔
بعد ازاں عدالت نے اس معاملے پر دلائل مکمل ہونے کے بعد ان درخواستوں کو مسترد کردیا اور عدالت عظمیٰ نے تمام 62 ایکڑ اراضی کڈنی ہل پارک کی قرار دے دی۔
'22 اموات پر بجلی والوں کو گلے سے کیوں نہیں پکڑتے؟'
کراچی رجسٹری میں درخواستوں پر سماعت کے دوران شہر قائد کی حالیہ بارشوں کا ذکر بھی آیا جس پر گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں حالیہ دنوں شدید بارشیں ہوئیں، ہم نے دیکھا کہ چند لوگ کیفے پیالہ پر بیٹھ کر چائے کا مزا لوٹ رہے تھے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ چند افراد نے تو صرف دفتر سے ہی بیٹھ کر معلوم کیا کہ کرنٹ لگنے سے کتنی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ میئر کراچی رین کورٹ پہن کر بارش کے پانی سے محظوظ ہوتے رہے اور ان کے اردگرد کے تمام لوگ بھیگتے رہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شہری حکومت اور صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہے، وفاق کی جانب سے اب کراچی کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اگر وفاقی حکومت بھی ناکام ہوجاتی ہے تو آپ کو اندازہ ہے کہ کیا ہوگا، شہری ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں انہیں اندازہ نہیں کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
دوران سماعت کراچی میں بارش اور اس میں کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کرنٹ لگنے سے 22 بچے مرگئے، بجلی والوں پر کوئی اثر تک نہیں ہوا، اس پر ساتھ ہی جسٹس گلزار نے کہا کہ 22 تو رپورٹ ہوئے ہیں نہ جانے کتنے مزید مارے گئے، اتنی ہلاکتوں پر بجلی والوں کو گلے سے کیوں نہیں پکڑتے۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ کے الیکٹرک کے خلاف ایکشن لیا ہے، جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ اس شہر کا کوئی احساس ہے، کے الیکٹرک والے باہر کے لوگ ہیں ان کا اپنا مفاد ہے، جب یہ مفاد ختم ہوگا تو وہ یہاں سے چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ابراج گروپ کے سب ہی ادارے ختم ہوگئے ہیں، کے الیکٹرک بچا ہے، آج ابراج چلا جائے تو کیا کوئی متبادل ہے، کے الیکڑک، ابراج گروپ کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، یہ 5 پیسے کے بدلے 5 کروڑ کا منافع لیتے ہیں، کیا کبھی کسی نے اس ادارے کا آڈٹ کیا۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ کے الیکٹرک نے تانبے کی ساری تاریں بیچ ڈالیں اور الیمونیم لگا دیا، یہ بتائیں اس شہر میں بجلی کا کوئی متبادل پلان بھی موجود ہے؟ شہر کا اتنا حساس نظام غیر ملکی کمپنی کو دیتے وقت سوچتے کیوں نہیں، اتنے بڑے بڑے افسران موجود ہیں بتائیں کہ کیا متبادل ہے آپ کے پاس؟
اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کے الیکڑک نے کچھ ڈلیور نہیں کیا، شہر کا سارا انفراسٹرکچر تباہ کر ڈالا، اس دوران جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ کسی جدید شہر میں کم از کم بجلی سے کوئی نہیں مرتا۔
جسٹس فیصل کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس گلزار نے کہا کہ آسمانی بجلی سے کوئی مرجائے تو الگ بات ہے، کے الیکڑک کنڈے کے بھی پیسے آپ اور مجھ سے وصول کر لیتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل، یہ مسائل ہمارے نہیں، ملک اور شہریوں کے ہیں، یہاں سب کا سیاسی ایجنڈہ ہے بچے مر رہے ہیں لیکن کسی کو کوئی خیال نہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ میری نواسی گھر سے اسکول جاتی ہے تو واپسی تک میری اہلیہ پریشان رہتی ہیں، شہر میں بارش میں بجلی سے 22 بچوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں، ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ بچے ہلاک ہوئے ہوں۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ کے الکیٹرک کو چلانے والی ابراج ناکام ہے، ابراج کا حال بھی بی سی سی آئی جیسا ہوگا، شنگھائی واپس چلی گئی، اگر ابراج بھی چلی جائے تو متبادل نہیں ہے۔
عدالتی ریمارکس پر کمشنر کراچی نے کہا کہ کے الیکٹرک کی اجارہ داری ہے، بارش کے دوران ان کو نظام اپ گریڈ کرنے کا کہا گیا ہے، اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ نظام اپ گریڈ کچھ نہیں ہوگا، سب ملے ہوئے ہیں سارا نظام گرا دیا گیا ہے۔
کراچی میں زلزلہ آیا تو 50 لاکھ سے زائد آبادی ختم ہوجائے گی، عدالت
عدالت میں سماعت کے دوران ایم اے جناح روڈ پر سی بریز پلازہ کی عمارت گرانے سے متعلق درخواست پر بحث آئی تو درخواست گزاروں کے وکیل شاہد انور باجوہ اور کنٹونمنٹ حکام و دیگر پیش ہوئے۔
اس دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ 40 سال سے عمارت خالی پڑی ہے کچھ تو گڑبڑ ہے جس پر وکیل نے کہا کہ پوری عمارت خالی نہیں صرف ہسپتال کے 6 فلور خالی ہیں، اگر عدالت نیسپاک کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہے تو کسی اور ادارے سے عمارت کا معائنہ کرالیا جائے۔
جس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل نے کہا کہ ہم نے پاکستان انجینئرنگ کونسل اور این ای ڈی یونیورسٹی کو لکھا تھا لیکن این ای ڈی یونیورسٹی نے معذرت کرلی تھی اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے معائنہ کروالیں۔
عدالتی ریمارکس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 83-1982 میں عمارت کے لیے پلان کی منظوری لی گئی تھی اور درخواست گزار چاہتے ہیں کہ اس کا معائنہ کیا جائے، اس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا یہ عمارت خطرناک ہے یا نہیں؟ جس پر وکیل کنٹونمنٹ بورڈ نے بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ہمیں لکھا ہے کہ عمارت خطرناک ہے۔
اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے 2 پلر دیکھ کر بتادیا کہ عمارت خطرناک ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہمیں جو نوٹس دیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے سپریم کورٹ نے عمارت کو خطرناک قرار دے دیا ہے۔
جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ دہلی کالونی میں 30 گز کی جگہ پر گیارہ منزلہ عمارت بنادی گئی ہے جب ہم نے گرانے کا حکم دیا تو کنٹونمنٹ نے معذرت کرلی۔
دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ حل بتانے کے بجائے معاملہ نسیپاک پر ڈال رہے ہیں، اگر عمارت گری تو کتنی جانیں ضائع ہوں گی انہیں کوئی اثر ہی نہیں ہورہا ہے، کنٹونمنٹ بورڈ اپنا کام نہیں کر رہا ہے۔
عدالتی ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ نیسپاک اس عمارت کی انسپیکشن نہیں کرسکتی ہے، اس سلسلے میں پاکستان انجینئرنگ کونسل سے بھی کہا جاسکتا ہے جبکہ نیسپاک کی رپورٹ کی پاکستان انجئیرنگ کونسل سے تصدیق کروائی جاسکتی ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عمارت کو چیک کرنے کے لیے کوئی لیبارٹری ہے؟
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے مصروف ہیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر عدالت نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اٹھارتی کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کے افسران اور ملازمین صرف مفت کی تنخواہ لے رہے ہیں، بتائیں کراچی میں کتنی عمارتیں زیر تعمیر ہیں؟
اس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ 4 سو 5 عمارتیں ہوں گی، جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں؟ ہمیں نہیں معلوم یہاں کیا ہورہا ہے؟ آپ کو شرم نہیں آتی کہ کراچی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟
جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا ہے آپ نے عزت بیچی، ضمیر بیچا، جسم بیچ دیا، آپ زندہ کیسے ہیں جبکہ ایسے لوگ ہارٹ اٹیک سے مرجاتے ہیں، ہر وقت نشے میں رہتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں 7 شدت کا زلزلہ آگیا تو 50 لاکھ یا ایک کروڑ کی آبادی ختم ہوجائے گی، سی بریز پلازہ بھی خطرناک ہے کسی وقت بھی گر سکتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سی بریز پلازہ کیس میں چیئرمین نیسپاک اور پاکستان انجنیئرنگ کونسل کو 9 اگست کو طلب کرلیا۔
پولیس چوکیوں کا معاملہ
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران لا آفیسر نے شہر سے پولیس اور رینجرز کی چوکیاں ہٹانے سے متعلق بتایا کہ رینجرز کی جو چوکیاں تھی وہ ہٹا دی گئی ہیں۔
جس پر عدالت نے ڈی جی رینجرز کو طلب کیا اور حکم دیا کہ جو بھی ہے ڈی جی رینجرز بولیں ہم یہ بات ان سے خود سننا چاہتے ہیں۔
ساتھ ہی عدالت نے شاہراہ فیصل سے متصل پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 کے داخلی راستے سے بیریئرز ہٹانے کا حکم دیا۔
عدالت نے اس کے ساتھ ہی استفسار کیا کہ انہیں پتلی گلی پر بیرئیرز لگانے کی کیا ضرورت ہے، سب پارک خالی کریں اور اپنی کوئی متبادل جگہ تلاش کریں، جس پر لا آفیسر نے کہا کہ سندھ حکومت جگہ نہیں دے رہی، اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جگہ نہیں مل رہی تو جہاں چاہیں ڈیرے ڈال دیں۔
بعدازاں عدالت نے شہر کے مختلف علاقوں سے پولیس چوکیان ہٹانے کے لیے 9 اگست تک کی مہلت دیتے ہوئے اس حوالے سے رپورٹ جمع کروانے کا حکم بھی دیا۔
اس درخواست پر سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن بھی عدالت میں پیش ہوئے اور پولیس رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق پولیس نے فٹ پاتھ یا سڑک پر بنی 15 آپریشنل چوکیاں اور 6 ٹریفک چوکیاں ہٹا دی ہیں۔
جس پر عدالت نے پولیس اور رینجرز کو فٹ پاتھ، سڑکوں، پارکس، کالجز اور اسکول سے اپنی تجاوزات ہٹانے کے لیے 3 ہفتے کی مہلت دے دی۔
آپ لوگ اسلام آباد سے صرف سے تقریریں کرنے آتے ہیں، عدالت
کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران سرکلر ریلوے کی بحالی کا معاملہ بھی زیربحث آیا جس پر عدالت نے اس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق 15 دن کی مہلت دی تھی لیکن ایک ماہ گزر چکا ہے، اس پر ریلوے حکام نے کہا کہ 34 ایکڑ اراضی میں سے 38 ایکڑ زمین خالی کرالی گئی ہے، جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کیا 4 کلومیٹر چاند تک بنتے ہیں جو زمین ابھی تک خالی نہیں کرائی جاسکی۔
اس پر ریلوے حکام نے کہا کہ سندھ حکومت کے کہنے پر سرکلر ریلوے کا منصوبہ سی پیک میں شامل کرلیا گیا ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریلوے حکام سے استفسار کیا کہ ہم نے سرکلر ریلوے کے ساتھ لوکل ٹرین بھی بحال کرانے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس گلزار احمد نے ڈی ایس ریلوے سے استفسار کیا کہ آپ نے ریلوے کی زمین دیکھی ہے جہاں پر تجاوزات ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں نے وہ زمین دیکھی ہے جہاں تجاوزات ہیں۔
اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو ابھی تک پتہ ہی نہیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، ریلوے کی زمین سے تجاوزات کا خاتمہ ہوگیا ہے کہ نہیں؟ جس پر ڈی ایس ریلوے نے بتایا کہ سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ اسٹیشن تک تجاوزات ہیں۔
ڈی ایس کے جواب پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اصل تجاوزات تو گلشن اقبال کے علاقے میں ہے، آپ لوگ اسلام آباد سے صرف یہاں تقریریں کرنے آتے ہیں، جب سے سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم دیا ہے چوتھے یا پانچویں ڈی ایس کو تبدیل کیا جاچکا ہے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ سرکلر ریلوے سی پیک میں شامل ہوا ہے یا نہیں۔
اس پر ڈی ایس ریلوے نے کہا کہ گرین لائن منصوبہ سرکلر ریلوے کے ساتھ ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم میں گرین لائن کا ذکر کہاں ہے۔
ساتھ ہی جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آج اگر سرکلر ریلوے چلانا چاہیں تو چل سکتی ہے؟ جس پر ریلوے حکام نے کہا کہ نہیں سرکلر ریلوے نہیں چل سکتی کیونکہ گرین لائن نے راستہ روک دیا ہے۔
اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ ریلوے کی زمین پر بڑی بڑی عمارتین بن چکی ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ زمین سندھ حکومت کی نہیں ہے اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جی یہ زمین سندھ حکومت کی ہے مگر ریلوے لیز دے رہی ہے۔
اس دوران جسٹس گلزار احمد نے ڈی ایس ریلوے سے مکالمہ کیا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر آپ کے ساتھ کیا کیا جائے؟ جس پر ڈی ایس ریلوے نے مجھے آئے ہوئے صرف 6 ماہ ہوئے ہیں۔
ڈی ایس ریلوے کے جواب پر جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر کوئی سرکاری آفیسر ایسے کہے تو اس عہدے پر نہیں آنا چاہیے، پہلے ہوم ورک کرکے آنا چاہیے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ تاریخ بتائی جائے کہ کونسی تاریخ کو سرکلر ریلوے چلے گی، بعد ازاں جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ 9 اگست کو بتایا جائے کہ سرکلر ریلوے سے متعلق کیا کیا ہے۔
قطری خطوں پر تو پورا کراچی بِکا ہوا ہے، عدالت
دوران سماعت الہ دین پارک سے متصل رفاہی پلاٹ کی الاٹمنٹ سے متعلق درخواست پر سماعت میں غیر قانونی الاٹمنٹ پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ قطری خط آگیا ہمارے پاس، یہ الاٹمنٹ بھی قطری خط ہے، ایسے قطری خطوں پر تو پورا کراچی بِکا ہوا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ رفاہی پلاٹ کو الاٹ کرنے کی اجازت کیسے دے دی؟ ہمیں بتائیں لیز کیسے منسوخ کریں گے؟ ہم ایسی کسی لیز کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس پر ممبر لینڈ یوٹیلائزیشن نے کہا کہ یہ پلاٹ 1999 میں الاٹ ہوا، کمیٹی نے 2010 میں ریگولرائزیشن کی اجازت دی، جس پر عدالت نے کہا کہ کمیٹی کو صرف قیمت کے تعین کا اختیار حاصل تھا۔
عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ 9 اگست کو طلب کرلیا اور چیئرمین نیب کو بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
علاوہ ازیں قونصل خانوں کے سامنے بیریئرز کا معاملہ بھی زیرغور آیا جس پر عدالت میں انسپکٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ قونصل خانے کے سامنے بیرئیرز لگانے کا معاملہ وزارت خارجہ سے متعلق ہے، جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد میں قونصل خانوں کے سامنے سے بیرئیرز ہٹا دیے گئے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ یہاں آپ نے امریکی قونصل خانے کی خاطر ہزاروں درخت کاٹ دیے یہاں تک کہ 200 سال پرانے درخت کاٹ دیئے گئے، اس شہر کے ساتھ کیا کیا ہورہا ہے میڈیا صرف 4 یا 5 عنوان پر خبریں نشر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس اس کا متبادل کیا ہے، اس شہر میں آپ جہاں چلے جائیں تجاوزات نظر آتی ہیں، لالو کھیت، کٹی پہاڑی اور ناظم آباد چلے جائیں آپ کو گینگ ملیں گے، کٹی پہاڑی کو کتنا گندا نام دیا گیا ہے، آپ کو راستہ بنانا تھا تو انڈر پاس بنا لیتے۔
سماعت کے دوران عدالت نے پارکس، رفاہی پلاٹس اور دیگر تجاوزات کے خاتمے سے متعلق سندھ حکومت کو آئندہ 2 ماہ میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے قونصل خانوں کے سامنے بیریئرز ہٹانے سے متعلق وفاق سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔