بھارت نے غلطی کی تو خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو ہم جواب دیں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوبارہ آغاز پر وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کی۔
قبل ازیں پیش کی گئی قرارداد میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دفعہ 370 ختم کرنے کا ذکر نہ ہونے پر اپوزیشن اراکین نے احتجاج کیا تھا جس کے باعث اجلاس 20 منٹ کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔
تاہم مشترکہ اجلاس 2 گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد شروع ہوا جس میں اعظم سواتی نے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کا معاملہ شامل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کی۔
وزیراعظم عمران خان کے پالیسی بیان، قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کے خطاب کے بعد اسپیکر اسمبلی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں اس اجلاس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اس اجلاس کو صرف پاکستانی قوم نہیں دیکھ رہی بلکہ کشمیری اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن اسی طرح شور کرنا چاہتی ہے تو میں بیٹھ جاتا ہوں جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنے دوستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ بیان سنیں پھر ہم اس کا مدلل جواب دیں گے۔
اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس سیشن کی اہمیت صرف کشمیریوں اور پاکستان کے لیے نہیں ہے بلکہ بھارت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے، لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ تحمل سے سنیں، آج یہاں سے بہت اہم پیغام جائے گا۔
مزید پڑھیں: ’بی جے پی سرکار نے انتخابات جیتنے کے زعم میں خطرناک کھیل کھیلا ہے‘
انہوں نے کہا کہ میری حکومت کی اولین ترجیح تھی کہ پاکستان میں غربت کو ختم کیا جائے اس کے لیے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں کیونکہ عدم استحکام کے اثرات شرح نمو پر مرتب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تمام پڑوسیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ خطے میں سرمایہ کاری آئے گی تو غربت کا خاتمہ ہوگا، میں نے بھارت سے رابطہ کیا کہ آپ ایک قدم ہماری طرف بڑھائیں گے ہم دو بڑھائیں گے جبکہ افغانستان، چین اور دیگر ممالک کا دورہ کیا اور حال ہی میں امریکا کا دورہ کیا۔
عمران خان نے کہا کہ امریکا کا دورہ اسی کوشش کی کڑی تھی کہ ماضی میں جو بھی مسائل تھے وہ ختم ہوں تاکہ پاکستان کو استحکام ملے، ترقی ملے اور غربت کا خاتمہ ہوسکے۔
پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خدشات کا اظہار کیا تھا، ہم نے انہیں سمجھایا تھا کہ 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا تو تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) منظور کیا تھا اور یہ عزم کیا تھا کہ پاکستان کی زمین کو کسی دہشت گرد گروہ کی جانب سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے جبکہ ہماری پیشکش کے بعد پلوامہ واقعہ ہوا، تاہم پلوامہ میں نریندر مودی کو سمجھایا کہ اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، لیکن اس وقت بھارت میں انتخابات تھے اور انہیں کشمیر میں ہونے والے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانی تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کا مقصد جنگی جنون اور پاکستان مخالف جذبات پیدا کر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا تھا، بھارت نے ڈوزیئر بعد میں بھیجا طیارے پہلے بھیجے جس کا پاک فضائیہ نے بھرپور جواب دیا، ہم نے ان کا پائلٹ پکڑا تو یہ بتانے کے لیے رہا کیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم بھارتی انتخابات تک خاموش ہوگئے، بشکیک میں منعقد کانفرنس میں بھارت کا رویہ دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ وہ ہماری امن کی کوششوں کو غلط اور اسے ہماری کمزوری سمجھ رہے ہیں، اس لیے ہم نے مزید بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ہر حد تک جائیں گے، آرمی چیف
وزیراعظم نے کہا کہ دو طرفہ طور پر یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا اور برصغیر میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ایک ارب افراد متاثر ہورہے ہیں اس لیے امریکی صدر سے ملاقات میں درخواست کی کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کریں لیکن اس پر بھارت کا رد عمل آپ کے سامنے تھا۔
عمران خان نے کہا کہ بشکیک میں اندازہ ہوگیا تھا کہ بھارت کو ہم سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں اور اس حوالے سے مجھے جو شبہ تھا وہ کل سامنے آگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے یہ فیصلہ اچانک نہیں کیا بلکہ یہ ان کے انتخابات کا منشور تھا اور یہ ان کا بنیادی نظریہ ہے جو آر ایس ایس کے نظریے پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے اور بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب تھا اور جب انگریز جارہے تھے تو ان کا ارادہ تھا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں دبا کر رکھیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو ہندو ۔ مسلم اتحاد کے سفیر سمجھے جاتے تھے، کیا وجہ تھی کہ انہوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت میں جو لوگ دو قومی نظریے کو نہیں مانتے تھے آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ٹھیک تھا، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں تمام اقلیتوں مسلمانوں اور مسیحی برادری کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی معروف تقریر میں کہا تھا کہ ’سب اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں' اور ہم غلطی سے کہتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے، دراصل یہ دو نظریے تھے، ایک نظریہ نسل پرست تھا کہ مسلمانوں کو برابری کا درجہ نہیں دیں جبکہ دوسرا نظریہ قائداعظم کا تھا کہ یہاں سب برابر ہیں اور یہ نظریہ ریاست مدینہ سے لیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 370، 35 اے کا خاتمہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے، وزیر خارجہ
وزیر اعظم نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری خطبے میں کہا تھا کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں، انہوں نے نسل پرستی کو مسترد کیا تھا اور پاکستان جس نظریے پر بنا اس میں تعصب نہیں تھا۔