اس دستاویز الحاق کے تحت بھارتی پارلیمنٹ کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دفاع، مواصلات اور خارجہ امور سے متعلق معاملات پر اختیارات ملے۔ راجہ ہری سنگھ نے اس موقع پر واضح کیا تھا کہ الحاق کی شرائط ان کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔
دستاویز الحاق کو بھارتی آئین کا حصہ بنایا جانا ضروری تھا تاکہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت اور پارلیمنٹ کے اختیارات کا واضح تعین کیا جاسکے، جس کے بعد دستاویز الحاق کی شرائط کو تسلیم کرنے کے لیے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو شامل کیا گیا، جو 2 فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا حصہ تھا۔
آرٹیکل 370 کا اصل مسودہ ہری سنگھ کی بنائی گئی شیخ عبداللہ حکومت نے تیار کیا جس پر 5 ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ بالآخر 27 مئی 1949ء کو یہ آرٹیکل 306 (اے) کے نام سے بھارتی آئین کا حصہ بنا۔ اس آرٹیکل کو بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کرنے والے رکن گوپال سوامی آینگر نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ الحاق مکمل ہوچکا لیکن ہم نے استصواب رائے کی پیشکش کی ہے۔ اگر استصواب رائے میں الحاق کی توثیق نہ ہوئی تو ہم کشمیریوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
16 جون 1949ء کو شیخ عبداللہ اور ان کے 3 ساتھی بھارتی پارلیمنٹ کا حصہ بنے اور 17 اکتوبر 1949ء کو باضابطہ طور پر آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس موقع پر ایک بار پھر گوپال سوامی آینگر نے استصواب رائے کا وعدہ دہرایا۔
مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو کالعدم نہیں کیا بلکہ راجہ ہری سنگھ سے جبری کرائے گئے الحاق کو کالعدم کردیا ہے۔ اس اقدام سے بھارتی آئین کی روشنی میں بھی بھارت اب جموں و کشمیر میں قابض فورس بن چکا ہے۔ جہاں تک بات ہے استصوابِ رائے کے وعدے کی تو یہ بھارتی قیادت کا کوئی احسان نہیں تھا بلکہ حالات کا جبر تھا۔
بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور دیگر ہندو انتہا پسند جماعتیں اپنے مفاد کی خاطر جواہر لال نہرو پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ استصوابِ رائے پر راضی ہوئے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بھارت نے مسلم ریاستوں کو ہتھیانے کے لیے استصوابِ رائے کا اصول طے کیا تھا۔ اس وقت بھارتی حکومت نے طے کیا تھا کہ الحاق پر جہاں بھی سوال اٹھے گا وہاں ریاست کے حکمران کا یکطرفہ فیصلہ قبول نہیں ہوگا۔ چند ریاستوں میں حکمران مسلمان لیکن رعایا کی اکثریت ہندو تھی، لہٰذا یہ اصول مسلم حکمرانوں سے ریاستیں ہتھیانے کے لیے اپنایا گیا۔
بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے الحاق کشمیر کی دستاویز قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ جونہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی ہے میری حکومت الحاق کا مسئلہ عوام کی رائے سے حل کرے گی۔ 1948ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر پر پیش کیے جانے والے وائٹ پیپر میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا۔
جہاں تک معاملہ ہے نہرو اور پٹیل کا، تو نہرو کشمیری ہونے کی وجہ سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرانا چاہتے تھے جبکہ پٹیل حیدرآباد پر قبضے کے خواہش مند تھے۔ ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ استصوابِ رائے ایک ڈھونگ تھا جسے بھارت نے مسلم ریاستیں ہتھیانے کے لیے استعمال کیا۔
ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بھارت نے یہ سب اچانک سے کردیا، ایسا کہنے والے 2014ء اور 2016ء کی بحث بھول گئے جب مودی حکومت اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے پَر تول رہی تھی، لیکن کشمیری قیادت نے کامیاب ہڑتال اور احتجاج کے ذریعے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ بھارت نواز کشمیری سیاست دان بھی اس کے آڑے آئے، اسی لیے محبوبہ مفتی حکومت کے ساتھ بی جے پی نے اتحاد توڑا اور پھر حکومت کی تشکیل نہ ہونے دی اور گورنر راج لگا دیا۔
بھارت کی طرف سے حالیہ اقدام حیران کن اس لیے بھی نہیں کہ یہ مشرف فارمولا سے ملتا جلتا انجام ہے جو کشمیریوں کو دیکھنا پڑا۔ مشرف فارمولا بھی کئی بار ابھرا اور دب گیا۔ مشرف کے وزیرِ خارجہ بھی کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کے دعوے کرتے رہے اور مشرف کے جانے کے بعد بھی ٹی وی پروگراموں میں فخر سے کہتے تھے کہ ہم کشمیر کے حل کے قریب تھے۔
###مشرف فارمولا کیا تھا؟
یہ فارمولا پرویز مشرف نے اکتوبر 2004ء میں خود بیان کیا تھا۔ مشرف یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر 7 حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر دونوں ممالک یہ طے کرلیں کونسے حصے ان کے پاس ہوں گے اور کونسے حصوں کو خودمختاری دی جاسکتی ہے۔
پرویز مشرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو 2 حصے قرار دیتے تھے، ایک آزاد کشمیر اور دوسرا شمالی علاقہ جات۔ جبکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے وہ 5 حصے کرنے کے حق میں تھے۔
آصف شاہد
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔