نقطہ نظر

مودی کی حماقت بھارت کو بھی لے ڈوبے گی!

بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کے ساتھ 371 بھی ہے جو دیگر 9 ریاستوں کو خصوصی درجہ فراہم کرتی ہیں، اور اب وہ سب پریشان ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے صدارتی فرمان کے اجرا اور بھارتی پارلیمنٹ میں ری آرگنائزیشن آف کشمیر بل پیش کیے جانے پر 5 اگست کو بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن قرار دیا جا رہا ہے۔ میں بھی اسے بھارتی جمہوریہ کے لیے سیاہ ترین دن سمجھتا ہوں لیکن اس کی واحد وجہ کشمیر کے ساتھ کی گئی تاریخی زیادتی اور جبر نہیں، بلکہ اور کئی دیگر اہم ترین وجوہات ہیں۔

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہر پاکستانی کی طرح میرا دل بھی کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے، اس لیے میرے موقف پر کوئی بھی فتویٰ لگانے سے پہلے پوری بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ بھارت کے لیے سیاہ ترین دن ہونے کی مزید وجوہات کیا ہیں؟

بھارتی وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ پارلیمنٹ سے خطاب کررہے ہیں—فوٹو بشکریہ: اے این آئی ٹوئٹر

کشمیر کے ساتھ تاریخی زیادتی اور جبر تو 70 سال سے جاری ہے لیکن تازہ اقدامات سے تو مودی حکومت نے بھارتیوں کا بھارتی آئین سے اعتماد ہی ختم کردیا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر واحد ریاست نہیں تھی، جس سے ریاست کا درجہ چھین لیا گیا بلکہ 5 اگست تک اصولی طور پر بھارت میں 29 ریاستیں تھیں لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے سے اب 28 ریاستیں رہ گئی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ مودی حکومت نے جو سلوک اور برتاؤ رکھا ہے اس کے بعد ان 28 ریاستوں کے خدشات اور تحفظات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ خدشات اور تحفظات بھارتی یونین میں نفاق کا ایسا بیج بوئیں گے جس پر پچھتانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر خصوصی درجہ رکھنے والی واحد ریاست نہیں بلکہ آرٹیکل 370 کے علاوہ بھارتی آئین میں آرٹیکل 371 بھی ہے جس کی 10 ذیلی شقیں ہیں جو دیگر 9 ریاستوں اور علاقوں کو خصوصی درجہ فراہم کرتی ہیں۔

وہ ریاستیں کونسی ہیں اور ان کے کیا حقوق ہیں آئیے جانتے ہیں۔

آرٹیکل 371 (اے) ناگالینڈ

آرٹیکل 371 (بی) آسام

آرٹیکل 371 (سی) منی پور

آرٹیکل 371 (ڈی) اور (ای) آندھرا پردیش

آرٹیکل 371 (ایف) سکم

آرٹیکل 371 (جی) میزو رام

آرٹیکل 371 (ایچ) اروناچل پردیش

آرٹیکل 371 (آئی) گوا

آرٹیکل 371 (جے) حیدرآباد اور کرناٹک

آرٹیکل 371 (اے) سے 371 (جی) تک تمام آرٹیکلز میں واضح ہے کہ ان میں ترمیم کے لیے متعلقہ ریاستی اسمبلی کی منظوری ضروری ہے۔ ایسا ہی 370 میں لکھا تھا لیکن مودی حکومت نے ریاستی اسمبلی کی منظوری ضروری نہ سمجھی بلکہ اس کے لیے محبوبہ مفتی کی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج پہلے ہی لگا دیا گیا تھا تاکہ نہ اسمبلی رہے اور نہ منظوری کی ضرورت پڑے۔


مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ان ریاستوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی آواز ضرور اٹھے گی۔ اس کا ثبوت راجیہ سبھا میں ری آرگنائزیشن آف کشمیر پر ہونے والی بحث ہے۔

کانگریس کے رہنما اور راجیہ سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن غلام نبی آزاد نے واضح الفاظ میں خبردار کیا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے بھارت کی 29 ریاستیں تھیں اب 28 رہ گئی ہیں، باقی 28 کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔

تامل ناڈو سے رکن راجیہ سبھا اور (ایم ڈی ایم کے) کے سربراہ وائیکو نے کہا کہ آج افسوسناک دن ہے کہ ہم نے (بھارت نے) کشمیریوں کے ساتھ اپنا وعدہ توڑ دیا۔

سابق وزیرِ داخلہ اور خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ آج حکومت نے تاریخی غلطی کی ہے اور ہماری اگلی نسل کو احساس ہوگا کہ اس ایوان نے یہ کیا کردیا۔


اب جہاں تک بات رہی کشمیر اور آرٹیکل 370 کی تو مودی حکومت نے بھارتی مؤقف پر خود ہی کلہاڑی چلادی ہے۔ آرٹیکل 370 ختم کرکے مودی نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا جھوٹا سچا الحاق بھی سرے سے ختم کردیا۔ یوں 5 اگست کو بھارت کے ساتھ اگر کشمیر کا کوئی الحاق تھا تو وہ بھی کالعدم ہوگیا ہے۔ اس الحاق اور آرٹیکل 370 کا تعلق بے سر و پا کہانی نہیں، تاریخی حقائق ہیں۔

تقسیمِ برِصغیر کے وقت متحدہ ہندوستان میں 2 طرح کے علاقے تھے، ایک برٹش انڈیا، جس پر براہِ راست برطانوی کنٹرول تھا۔ دوسرے وہ علاقے جن پر راجے، مہاراجے اور نظام حکومت کرتے تھے لیکن تختِ برطانیہ کے باج گزار تھے۔

انڈین انڈی پنڈنٹس ایکٹ 1947ء کے ذریعے متحدہ ہندوستان کو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ برٹش انڈیا کے علاقوں کو براہِ راست 2 حصوں پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کیا گیا لیکن 580 ریاستوں کو مکمل خودمختاری دیتے ہوئے 3 آپشن دیے گئے۔

1947ء کے ایکٹ کے سیکشن (6 اے) کے تحت کہا گیا کہ کسی بھی ملک کا حصہ بننے کے لیے ریاستیں الحاق کی دستاویز کا راستہ اپنائیں گی۔ ان دستاویز کی شرائط وہ ہوں گی جنہیں اس ریاست کا حکمران قبول کرے گا۔ یہ دستاویز الحاق اس ریاست اور ملک کے درمیان اختیارات کی تقسیم کرے گی۔

تکنیکی طور پر دستاویز الحاق 2 خودمختار ملکوں یا ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا جنہوں نے مل کر چلنے کا عہد کیا تھا۔ یہ 2 ملکوں کے درمیان طے پانے والے کسی بھی طرح کے معاہدے جیسا ہی تھا۔ 2 ملکوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ اگر ایک بار ٹوٹ جاتا ہے تو دونوں فریق پرانی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دیے جانے کو بھی اسی بین الاقوامی قانون کی نظر سے دیکھنا ہوگا۔

1947ء سے پہلے جموں و کشمیر الگ ریاست تھا جس کا حکمران ہندو راجہ اور رعایا کی اکثریت مسلمان تھی۔ ریاست کی جغرافیائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے راجہ ہری سنگھ نے خودمختار رہنے اور دونوں ملکوں کے ساتھ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں بھارت نے فوج کشی کرکے راجہ ہری سنگھ کو مجبور کیا اور انہوں نے شیخ عبداللہ کے مشورے پر 26 اکتوبر 1947ء کو دستاویز الحاق پر دستخط کردیے۔ اور پھر 27 اکتوبر کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی حکومت کی طرف سے پیش کی گئی اس دستاویز کو قبول کرلیا۔

اس دستاویز الحاق کے تحت بھارتی پارلیمنٹ کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دفاع، مواصلات اور خارجہ امور سے متعلق معاملات پر اختیارات ملے۔ راجہ ہری سنگھ نے اس موقع پر واضح کیا تھا کہ الحاق کی شرائط ان کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔

دستاویز الحاق کو بھارتی آئین کا حصہ بنایا جانا ضروری تھا تاکہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت اور پارلیمنٹ کے اختیارات کا واضح تعین کیا جاسکے، جس کے بعد دستاویز الحاق کی شرائط کو تسلیم کرنے کے لیے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو شامل کیا گیا، جو 2 فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا حصہ تھا۔

آرٹیکل 370 کا اصل مسودہ ہری سنگھ کی بنائی گئی شیخ عبداللہ حکومت نے تیار کیا جس پر 5 ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ بالآخر 27 مئی 1949ء کو یہ آرٹیکل 306 (اے) کے نام سے بھارتی آئین کا حصہ بنا۔ اس آرٹیکل کو بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کرنے والے رکن گوپال سوامی آینگر نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ الحاق مکمل ہوچکا لیکن ہم نے استصواب رائے کی پیشکش کی ہے۔ اگر استصواب رائے میں الحاق کی توثیق نہ ہوئی تو ہم کشمیریوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

16 جون 1949ء کو شیخ عبداللہ اور ان کے 3 ساتھی بھارتی پارلیمنٹ کا حصہ بنے اور 17 اکتوبر 1949ء کو باضابطہ طور پر آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس موقع پر ایک بار پھر گوپال سوامی آینگر نے استصواب رائے کا وعدہ دہرایا۔

مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو کالعدم نہیں کیا بلکہ راجہ ہری سنگھ سے جبری کرائے گئے الحاق کو کالعدم کردیا ہے۔ اس اقدام سے بھارتی آئین کی روشنی میں بھی بھارت اب جموں و کشمیر میں قابض فورس بن چکا ہے۔ جہاں تک بات ہے استصوابِ رائے کے وعدے کی تو یہ بھارتی قیادت کا کوئی احسان نہیں تھا بلکہ حالات کا جبر تھا۔

بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور دیگر ہندو انتہا پسند جماعتیں اپنے مفاد کی خاطر جواہر لال نہرو پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ استصوابِ رائے پر راضی ہوئے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بھارت نے مسلم ریاستوں کو ہتھیانے کے لیے استصوابِ رائے کا اصول طے کیا تھا۔ اس وقت بھارتی حکومت نے طے کیا تھا کہ الحاق پر جہاں بھی سوال اٹھے گا وہاں ریاست کے حکمران کا یکطرفہ فیصلہ قبول نہیں ہوگا۔ چند ریاستوں میں حکمران مسلمان لیکن رعایا کی اکثریت ہندو تھی، لہٰذا یہ اصول مسلم حکمرانوں سے ریاستیں ہتھیانے کے لیے اپنایا گیا۔

بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے الحاق کشمیر کی دستاویز قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ جونہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی ہے میری حکومت الحاق کا مسئلہ عوام کی رائے سے حل کرے گی۔ 1948ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر پر پیش کیے جانے والے وائٹ پیپر میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا۔

جہاں تک معاملہ ہے نہرو اور پٹیل کا، تو نہرو کشمیری ہونے کی وجہ سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرانا چاہتے تھے جبکہ پٹیل حیدرآباد پر قبضے کے خواہش مند تھے۔ ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ استصوابِ رائے ایک ڈھونگ تھا جسے بھارت نے مسلم ریاستیں ہتھیانے کے لیے استعمال کیا۔

ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بھارت نے یہ سب اچانک سے کردیا، ایسا کہنے والے 2014ء اور 2016ء کی بحث بھول گئے جب مودی حکومت اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے پَر تول رہی تھی، لیکن کشمیری قیادت نے کامیاب ہڑتال اور احتجاج کے ذریعے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ بھارت نواز کشمیری سیاست دان بھی اس کے آڑے آئے، اسی لیے محبوبہ مفتی حکومت کے ساتھ بی جے پی نے اتحاد توڑا اور پھر حکومت کی تشکیل نہ ہونے دی اور گورنر راج لگا دیا۔

بھارت کی طرف سے حالیہ اقدام حیران کن اس لیے بھی نہیں کہ یہ مشرف فارمولا سے ملتا جلتا انجام ہے جو کشمیریوں کو دیکھنا پڑا۔ مشرف فارمولا بھی کئی بار ابھرا اور دب گیا۔ مشرف کے وزیرِ خارجہ بھی کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کے دعوے کرتے رہے اور مشرف کے جانے کے بعد بھی ٹی وی پروگراموں میں فخر سے کہتے تھے کہ ہم کشمیر کے حل کے قریب تھے۔

###مشرف فارمولا کیا تھا؟

یہ فارمولا پرویز مشرف نے اکتوبر 2004ء میں خود بیان کیا تھا۔ مشرف یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر 7 حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر دونوں ممالک یہ طے کرلیں کونسے حصے ان کے پاس ہوں گے اور کونسے حصوں کو خودمختاری دی جاسکتی ہے۔

پرویز مشرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو 2 حصے قرار دیتے تھے، ایک آزاد کشمیر اور دوسرا شمالی علاقہ جات۔ جبکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے وہ 5 حصے کرنے کے حق میں تھے۔

مشرف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ نیویارک میں بھارتی وزیرِاعظم منموہن سنگھ سے انہوں نے ان سے کہا تھا کہ استصوابِ رائے اور کنٹرول لائن کو سرحد بنانے کی باتیں چھوڑیں اور دیگر تجاویز پر غور کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دونوں ممالک اس حوالے سے کام بھی کررہے ہیں۔

تقسیمِ کشمیر پر بھارت نے عمل کردیا اور یہی مشرف کا فارمولا تھا۔ مشرف نے مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی بات کی تھی، مودی حکومت جموں و کشمیر کو 3 حصوں میں بانٹ رہی تھی لیکن عین وقت پر جموں و کشمیر کو اکٹھا رکھ کر لداخ کو الگ کیا گیا۔ ہوسکتا ہے مودی حکومت اگلے مرحلے میں کشمیر کے 7 حصے کردے ۔ یوں مسئلہ کشمیر کا مشرف فارمولا مکمل ہوجائے لیکن یہ فارمولا اس وقت بھی حریت قیادت کو منظور نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔

مشرف کے ہم خیال آئندہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کی راگنی الاپ کر مودی پر الزام دھرتے رہیں گے کہ بیڑہ غرق ہو مودی کا جس نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔