کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے سوشل میڈیا پر 'ریڈ فار کشمیر' مہم
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم، وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، وہاں اضافی فوج تعینات کرنے اور انٹرنیٹ و فون سروس معطل کرنے پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا صارفین نے خصوصی مہم کا آغاز کردیا۔
بھارت نے گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کرنے کا صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا۔
خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔
دوسری جانب بھارتی حکومت مختلف مراحل میں مقبوضہ وادی میں اضافی فوج بھی تعینات کر رہی ہے جو پہلے سے ہی دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور 35اے کیا ہے؟
حالیہ دنوں میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم میں بھی تیزی آئی ہے جبکہ سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے علاوہ متعدد حریت رہنماؤں کو بھی گرفتار یا نظربند کر رکھا ہے۔
بھارت کی کشمیر میں اس بڑھتی جارحیت اور مظالم نے جہاں عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے، وہیں دنیا بھر سے عوام بھی بھارت پر تنقید اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
اسی سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی خصوصی مہم کا آغاز ہوچکا ہے اور صارفین ہیش ٹیگ 'ریڈ فار کشمیر' (RedForKashmir#) کے ساتھ ٹوئٹس اور اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس ٹرینڈ کے ساتھ ٹوئٹ کرتے ہوئے صارفین نہ صرف سرخ تصویر شیئر کر رہے ہیں بلکہ پروفائل تصاویر بھی اس سے تبدیل کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا‘
ایک صارف نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'بھارت کی کوئی بھی دلیل کشمیر میں اس کے مظالم کا جواز نہیں ہو سکتی، جبکہ کشمیریوں کی اگلی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ دیگر کر رہے ہیں۔'
دوسری کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کا تنازع طویل، متنازع اور حساس ہے جسے سیاسی، مذہبی اور تاریخی افراتفری کے بھینٹ چڑھا کر اس کے حل کو مشکل بنا دیا گیا، لیکن اب اسے جلد حل کرنے کی ضرورت ہے اور کشمیر امن کا حق دار ہے۔'
ایک صارف نے لکھا کہ 'کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔'
ٹوئٹر پر ایک صارف نے کہا کہ 'ہم کشمیر کے تنازع میں بہت شدت دیکھ رہے ہیں، خطے میں 35 ہزار اضافی فوجی تعینات کر دیئے گئے ہیں جہاں پہلے ہی 5 لاکھ فوجی موجود ہیں، اس لیے ہم مسئلے پر عالمی توجہ کے لیے اس مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔'