نقطہ نظر

ڈالر کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے؟

بطورِ ٹیکس کنسلٹنٹ میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو ڈالر کیش کروانا چاہتے ہیں مگر پوچھ گچھ کے خوف سے ایسا نہیں کررہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پیش کی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بظاہر کامیاب نظر آئی اور امید پیدا ہوئی ہے کہ کچھ بہتری آئے گی، مگر سب کچھ ٹھیک ہونے کا امکان نہیں کیونکہ معاشی اعتبار سے پاکستان میں جو بڑے مسائل ہیں ان میں سب سے اہم ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے جس پر عوام تذبذب کا شکار ہیں اور ڈالر کو روپے کے مقابلے میں نیچے لانے کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔

پوری دنیا میں ڈالر کو کنٹرول کرنے کا سادہ اور مستند فارمولا برآمدات کو بڑھانا اور درآمدات کو کم کرنا ہے لیکن یہ عمل سست روی سے آگے بڑھتا ہے، جس کے نتائج سالوں بعد سامنے آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کچھ ممالک نے ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کیے ہیں جن میں ترکی سرِفہرست ہے۔

یہ گزشتہ سال کی بات ہے جب امریکا اور ترکی کے درمیان حالات کشیدہ ہوئے تو ڈالر کے مقابلے میں لیرا شدید متاثر ہوا۔ یہ وقت ترکی کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا تھا اور وقت بڑے فیصلوں کا مطالبہ کررہا تھا۔ جس کے بعد ترک صدر نے بڑے فیصلے کیے اور کرنسی کے اس بڑے فرق کو روکنے کے لیے انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ڈالر بیچ کر لیرا خریدیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ڈالر کی یہ بڑھتی ہوئی قیمت ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتی، اس لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کے پاس ڈالر یا یورو ہے تو اس کو بیچ کر لیرا خرید لیں، یہ ہماری قومی جدوجہد ہے، اگر آج ہم یہ نہیں کرسکے تو پھر کب؟‘

طیب اردوان کی درخواست پر پورے ترکی میں ڈالر بیچنے کی مہم چل پڑی اور صرف چند دنوں میں لیرا ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوگیا۔ یہ استحکام پہلے جیسا تو نہیں تھا مگر اس مہم نے کافی حد تک لیرا کو سہارا دیا اور ڈالر کی قیمت کو کم کر دیا۔

پاکستان میں بھی ڈالر کو فوری طور پر قابو کرنے کے لیے کچھ اسی طرح کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے ماحول، معاشیات اور عوام کی دلچسپی کے عین مطابق ہو۔

پاکستان میں جب وزیرِاعظم عمران خان نے عوام سے ڈالر بیچنے اور روپیہ خریدنے کی درخواست کی تو اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا، کیونکہ کاروباری حضرات رضاکارانہ طور پر یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اس کے بدلے کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی کی اصل وجہ ڈر تھا جو وزیرِاعظم عمران خان نے عام آدمی کے دلوں میں ڈال دیا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 300 ارب کے اثاثے ظاہر ہوئے۔

بطورِ ٹیکس کنسلٹنٹ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو ڈالر کیش کروانا چاہتے ہیں مگر وہ صرف اس ڈر کی وجہ سے نہیں کروا رہے کہ ہم سے پوچھ گچھ ہوگی۔

ایک بزرگ میرے پاس آئے جو چھوٹی دکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ 'مجھے ڈالر کیش کروانے ہیں لیکن میرا نام نہ آئے۔'

میں نے پوچھا 'کتنے ڈالر ہیں؟'

بزرگ نے جواب دیا '9 لاکھ 80 ہزار۔'

میں نے پوچھا 'ڈالر کہاں رکھے ہیں؟'

جواب دیا کہ 'گھر میں۔'

یہ سن کر تو میں حیران ہوگیا اور پوچھا کہ 'اتنی بڑی رقم گھر میں کیوں رکھی ہے؟'

جواب دیا کہ 'بینک میں رکھیں تو پوچھتے ہیں کہ منی ٹریل دیں۔ اب میں اپنے ہی کمائے ہوئے پیسوں کی منی ٹریل بھلا کیوں دوں؟ حکومت کو بتا کر پھنسنے سے بہتر ہے کہ ڈالر گھر میں ہی رکھ لوں۔'

میں نے پوچھا کہ 'آپ تو چھوٹے سے دکاندار ہیں اتنی بڑی رقم آپ کے پاس کہاں سے آگئی؟'

کہنے لگے کہ 'یہ تو کچھ بھی نہیں۔ میرے ساتھ کے دکانداروں نے تو اس سے بھی زیادہ ڈالر خرید کر گھر اور بینک لاکر میں رکھوائے ہوئے ہیں اور کچھ تو افغانستان کے راستے ڈالر دبئی بھی منتقل کر رہے ہیں۔'

اس طرح کے سیکنڑوں واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں لیکن اس معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا۔

حکومت پاکستان کو چائیے کہ وہ کاروباری حضرات سے ڈالر نکلوانے کے لیے ڈالر ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائے۔ اس اسکیم کے ذریعے کوئی بھی شخص 3 ماہ کے اندر اندر کسی بھی بینک سے ڈالر کیش کروا سکتا ہے اور اس سے ڈالر کی منی ٹریل کے بارے میں کچھ بھی پوچھا نہیں جائے گا۔ ہاں مگر جو 3 ماہ کے بعد آئے گا تو اسے منی ٹریل دینا لازم ہوگی۔ اس اسکیم کے ذریعے حکومت ڈالر کے بدلے بانڈز جاری کرنے کا پروگرام بھی لاسکتی ہے۔ جو بھی ڈالر ایکسچینج کروانا چاہتا ہے اس سے منی ٹریل نہیں پوچھی جائے گی اور اس کے بدلے مخصوص مدت کے بانڈ جاری کیے جائیں گے۔

مجھے امید نہیں یقین ہے کہ جس طرح ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے عام آدمی نے فائدہ اٹھایا ہے، بالکل اسی طرح ڈالر ایمنسٹی اسکیم سے بھی فائدہ اٹھایا جائے گا، یوں رسد اور طلب کے درمیان فرق ختم ہوگا اور مارکیٹ میں ڈالر کی فراوانی ہوسکے گی۔

میرے ایک کلائنٹ پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ زیادہ تر پراپرٹی بلیک منی سے خریدی گئی ہے۔ غیر ظاہر شدہ اثاثے پراپرٹی، ڈالر اور سونے کی شکل مں محفوظ کرتے ہیں۔ پراپرٹی کے کاروبار میں مندی کے باعث مینوفیکچرنگ انڈسٹری لگانے کے خواہش مند ہیں لیکن ڈالر ظاہر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ حکومت چاہے تو اس طرح کے بے شمار لوگوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستانی معیشت کا 75 فیصد حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔ یہاں دبئی انویسٹمنٹ ماڈل استعمال کرکے اربوں ڈالر پاکستانی معیشت میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔

ڈالر ایمنسٹی اسکیم کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو شخص ڈالر بیچ کر پاکستان میں انڈسٹری لگائے گا اس سے ڈالر کی منی ٹریل نہیں پوچھی جائے گی، بلکہ 5 سال تک اسے انکم ٹیکس میں استثنٰی حاصل ہوگا۔ اس طرح حکومت کے پاس ڈالر بھی آجائیں گے اور ملک میں بے روزگاری بھی کم ہوجائے جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔

میرے تجربے کے مطابق پاک افغان تجارت بھی ڈالر کے عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ میرے کچھ کلائنٹس پشاور اور کوئٹہ سے افغانستان برآمدات کرتے ہیں۔ ان برآمدات کی حقیقت انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اکثر سامان جو افغانستان برآمد کیا جاتا ہے اس کی ادائیگی ڈالر میں نہیں ہوتی بلکہ افغانستان میں جس پارٹی کو برآمدات کی جاتی ہیں ان کا ایک پارٹنر پاکستان میں پشاور یا کوئٹہ کا رہائشی ہوتا ہے۔ پھر افغانستان سے افغان کرنسی اسمگل ہو کر پاکستان آتی ہے جسے روپوں میں تبدیل کروا کے رقم روپوں کی شکل میں سپلائر کے اکاونٹ میں منتقل کردی جاتی ہے یا کیش ادا کردیا جاتا ہے۔

اب اس پورے کھیل میں برآمدات کرنے کا مقصد ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ ڈالر پاکستان میں آیا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان سے بہت سی تجارت صرف کاغذوں پر مہریں لگانے تک محدود ہے۔ افغانستان کو برآمد کیا جانے والا اکثر سامان پاک افغان بارڈر پر ہی بک جاتا ہے اور دونوں اطراف سے کاغذوں پر مہریں لگا کر فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ اس جعلی تجارت سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

حکومتِ پاکستان اگر سرحد پر توجہ دے تو وہاں ہونے والے اس عجیب و غریب کھیل کو روکنا ہرگز مشکل کام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ ہونے والی تجارت سے متعلق ضروری قانون سازی کرکے ان مسائل پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنا اب ضروری ہوچکا ہے کیونکہ ہماری معیشت یوں اربوں کا نقصان برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔