چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروباری ادارے (ایس ایم ایز) حالیہ حکومتوں کی جانب سے مقامی منڈی کے لیے بھاری قرضے اٹھانے کی وجہ سے ان چھوٹی اور متوسط درجے کی کمپنیوں کے لیے قرضے کا حصول مسلسل مشکل بنائے رکھا ہے جو ملازمتوں، مصنوعات اور سروسز کی پیداوار کے اہم اور بڑے ذرائع ہیں۔
آج پاکستان میں ایس ایم ایز نام نہاد نجی مالی ذرائع سے 20 سے 30 فیصد کی شرح سود پر کاروبار کو بڑھانے کے لیے رقوم قرض پر اٹھارہے ہیں۔ ایس ایم ایز کو نارمل بینکنگ ذرائع سے مارکیٹ ریٹ کے مطابق سہل قرضوں کی فراہمی کے لیے ایک معقول پالیسی مطلوب ہے۔
اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیز) سی پیک کے دائرہ کار میں آنے والے اور اس کے علاوہ دیگر اسپیشل اکنامک زونز کے قیام میں تاخیر کی اہم وجہ یہ لڑائی رہی ہے کہ یہ زونز کس کی زمین پر بنائے جائیں (اور زیادہ سے زیادہ منافع کے ساتھ زمینیں بیچی جائیں)۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ’دائرہ البارزہ‘ (imminent domain) پر ایک قانون نافذالعمل کرے جس کے تحت Pre-industrial قیمتوں پر ایس ای زیز کے لیے زمینوں کی مانگ کرے۔ اس طرح حکومت کا پیسہ بچے گا اور ایس ای زیز کے قیام کے عمل میں بھی تیزی آئے گی۔
کوڑے کا بہتر استعمال پاکستان کے بڑے بڑے شہر اپنے ہی کوڑے کرکٹ میں ڈوبتے جا رہے ہیں، جس کا ایک نظارہ گزشتہ ہفتے کی مون سون بارشوں کے بعد کراچی کی بدتر صورت میں دیکھا۔ کراچی روزانہ 11 ہزار ٹن ٹھوس کوڑا پیدا کرتا ہے جبکہ لاہور 7 ہزار اور حیدرآباد 4 ہزار ٹن۔ ٹھوس کوڑے کو توانائی میں بدلنے والے پلانٹس کوڑا کو ٹھکانے لگانے کا ایک اچھا حل ثابت ہوسکتا ہے۔
کچھ لاطینی امریکی ممالک 6 سے 20 سینٹ فی کلو واٹ ادا کر رہے ہیں تاکہ امریکی اور سوئیڈش کمپنیاں انہیں اپنے پیسوں سے مؤثر ترین پلانٹس لگا کردیں۔
پاکستان میں صوبائی حکام 9 سے 10 سینٹس کی پیش کش کرتے ہیں۔ اس ریٹ پر لاہور میں قائم چینی پلانٹ متروک ہوچکے ہیں۔ کوڑے کے استعمال سے چلنے والے پاور پلانٹس میں سرمایہ کاری کو پُرکشش بنانے کے لیے حقیقت پسندانہ ریٹس اور کلیکشن فیس نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
تھر کا کوئلہ تھر کے وسیع رقبے پر پھیلے کوئلے کے ذخیرے سے پاکستان پوری طرح سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے گا کیونکہ پلانٹس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کی کمی لاحق ہے۔ پھر کاربن کا اخراج ناقابلِ قبول حد تک زیادہ ہوگا اور کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار دیگر متبادل ذرائع سے زیادہ سستی نہیں ہوگی کیونکہ (متروکہ سازو سامان کے ساتھ) کان کنی پر (ورجینیا، امریکا کے 8 ڈالر کے مقابلے میں 40 ڈالر کے ساتھ) بھاری لاگت آتی ہے۔
تھر کے کوئلے کو پائپ لائن کے معیار کی گیس میں تبدیل کرنے سے اسے توانائی، کھاد اور دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، یوں کاربن کے اخراج پر قابو پانا اور کان کنی کو زیادہ مؤثر بنانا ممکن ہوسکے گا۔ اس کام کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ حکومت اور توانائی کی پیداوار سے وابستہ کمپنیوں کو اس جدید ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری اور اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔
مینوفیکچرنگ (پیداوار) پاکستان کی جی ڈی پی میں پیداوار کے شعبہ کا حصہ 10 فیصد ہے۔ جب تک پاکستان اپنی نوزائیدہ مقامی صنعتوں (’لبرلائزیشن‘ جو کہ خودکشی کے مترادف ہے اس کی وکالت کرنے والوں کو نظر انداز کرتے ہوئے) اہم ٹیرف اور نان ٹیرف ’تحفظ‘ نہیں بڑھاتا اور/یا اپنے کاروباری اداروں کو مؤثر غیر ملکی پیداواری اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں قدم رکھنے (وہ پیداواری ادارے اگر پاکستان میں برآمدات نہیں کرسکتے تو وہ اس قسم کے مشترکہ منصوبوں میں ضرور شریک ہوں گے) کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کرتا تب تک یہ ایک غیر صنعتی ملک ہی رہے گا۔
سی پیک پاکستان کو ترقی کے لیے انفرااسٹریچکر درکار ہے اور چین واحد ایسا ملک ہے جو اس کی تعمیر کے لیے تیار ہے۔ ان کے باضاطہ قرضے ’سستے‘ (ادائیگی کے لیے طویل دورانیوں اور 2 سے 3 فیصد کی شرح سود کے ساتھ، ٹھیک ’گرانٹ‘ کی طرح) ہیں۔
منیر اکرم
لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔