پاکستان

افغان امن معاہدے کیلئے غیر ملکی افواج کا انخلا بنیادی مطالبہ

طالبان ترجمان نے ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا سے 80 فیصد مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں۔

پشاور: افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا سے 80 فیصد مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں تاہم اس میں امریکی فوج کے انخلا کے ٹائم فریم پر اب بھی بحث ہونا باقی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہم 80 فیصد امور پر معاہدہ کرچکے ہیں اور باقی 20 فیصد میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور ایک اور مسئلہ شامل ہے'۔

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دوسرا 'مسئلہ' کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے اور بڑا مسئلہ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا ہے۔

مزید پڑھیں: دوحہ: امریکا طالبان مذاکرات کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع

ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکا کے سفیر برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان سے ملاقات کی۔

تازہ مذاکرات کو نہایت اہم تصور کیا جارہا ہے جس میں امریکی افواج کا 18 سال بعد وسطی ایشیائی ملک سے انخلا سے متعلق پیش رفت کی اُمید کی جارہی ہے۔

طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ہم پراُمید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلے میں معاہدہ کرلیں گے کیونکہ امریکا نے اس سے قبل بھی اس جانب اشارے دیے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: وزیرِِاعظم عمران خان نے دورہ امریکا سے کیا کچھ حاصل کیا؟

انہوں نے حال ہی میں سامنے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی 2020 کے صدارتی انتخابات سے قبل فوجی انخلا کے حوالے سے رپورٹس کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی انخلا کا آغاز 14 ہزار فوج میں سے 50 فیصد کو واپس بلانے کے ساتھ کیا جائے گا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا، اس طرح کے اشارے دے رہا ہے تاہم انہیں اب تک مذاکرات کی ٹیبل پر یا تحریری صورت میں نہیں لایا گیا، فوجی انخلا کا وقت نہایت ضروری ہے اور ہم پراُمید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلے میں فیصلہ ہوجائے گا'۔

اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات کے امریکی مطالبے کے حوالے سے سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تمام معاملات امریکا سے امن معاہدے کے بعد زیر بحث آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انٹرا افغان ڈائیلاگ اور افغانستان میں جنگ بندی کی اہمیت ہم جانتے ہیں تاہم یہ امریکا سے امن معاہدہ ہونے کے بعد زیر بحث آئیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'امریکا سے معاہدہ پہلا حصہ ہے اور دوسرے حصے کا آغاز اس وقت ہوگا جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر معاہدہ کرلیں گے'۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان کے ساتھ معاشی سرگرمیاں بڑھانے کا عندیہ

انہوں نے واضح کیا کہ افغان طالبان کابل کی حکومت کو نہیں مانتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کابل حکومت کو نہیں مانتے مگر ہم اسے دیگر افغان تحاریک کی طرح تنازع کا حصہ سمجھتے ہیں، وہ بھی انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شامل ہوں گے تاہم یہ صرف اس وقت ہوگا جب امریکا کے معملات اختتام کو پہنچیں گے'۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ 'ہم اس کے بعد جنگ بندی اور دیگر امور کے لیے انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز کرسکتے ہیں'۔

اسلام آباد سے دعوت نامہ موصول ہونے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کی کوئی بات ابھی نہیں ہوئی اور اب تک ہمیں اسلام آباد سے کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم دیگر دارالحکومتوں میں اپنے وفد بھیجتے ہیں اور ہم دعوت ملنے پر اسلام آباد بھی اپنی ٹیم بھیج سکتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان اور حکومتی وفود ماسکو میں ملاقات کریں گے

واضح رہے پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ دوحہ میں افغان طالبان کے دفتر کو وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے دعوت نامہ ارسال کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے حال ہی میں واشنگٹن کے دورے کے دوران نشاندہی کی تھی کہ وہ افغان طالبان کو اسلام آباد بلا کر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے پر زور دیں گے۔

عمران خان کی کابل سے مذاکرات کرنے کی درخواست کیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہوسکتی، ایک چیز دوسرے کے بغیر نہیں ہوسکتی، یہ ہماری واضح پالیسی ہے، انٹرا افغان ڈائیلاگ کا افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے کے بعد فوری آغاز ہوجائے گا'۔