نقطہ نظر

کمال الدین نے کس طرح نومولود پاکستان میں یونائیٹڈ بیکری کی بنیاد ڈالی؟

اصل قصہ یہ ہےکہ انسپکٹر اور پریرا دونوں مسیحی ہیں اور مسلمان ہونے کیوجہ سےدھمکا کر شاید مجھے واپس انڈیا بھیجنا چاہتے ہیں

ہجرت کی بے شمار کہانیاں ہم سن چکے ہیں، اور ہر ایک کہانی اپنے اندر درد، خوف، امید اور مستقبل کے حوالے سے خدشات لیے ہوتی ہے۔ ایک ایسی ہی کہانی آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے، جو ان سب عوامل کے ساتھ ساتھ نیا جذبہ اور نئی ہمت بھی لیے ہوئے ہے۔

کراچی، اسلام آباد اور پنڈی میں واقع یونائیٹڈ بیکری کے مالک کمال الدین اپنی آپ بیتی ’میری کہانی میری زبانی‘ مطبوعہ دسمبر 1992ء میں ہجرت کی تلخ اور شیریں یادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ،

پاکستانی پرچم لہرانا: میں نوجوان تھا اور اسلامی جذبے سے سرشار بھی۔ جب حکومتِ برطانیہ کی جانب سے 3 جون کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو میں عید منانے کے لیے گاؤں راجگری گیا اور== میرے ہاتھ میں مسلم لیگ کا پرچم تھا۔ میں نے وطنِ عزیز کے حصول کی محبت اور جوش جوانی میں یہ پرچم اپنے مکان کی چھت پر لگادیا۔ ہمارے پورے علاقے میں یہ چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ راجگری والوں نے پاکستان بنادیا۔ دراصل علاقے کے لوگ ناخواندہ تھے۔ جب انہوں نے مسلم لیگ کا پرچم ہمارے مکان پر دیکھا تو بے ساختہ بول اٹھے کہ راجگری والوں نے پاکستان بنایا ہے۔ ابھی باؤنڈری کمیشن کا اعلان نہیں ہوا تھا اور عام تاثر یہی تھا کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہوگا۔ اس لیے تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں اطمینان سے بیٹھے رہے لیکن اس وقت ہم سب کو حیرت ہوئی جب باؤنڈری کمیشن نے اعلان کیا کہ یہ تمام علاقے بھارت میں شامل ہوں گے۔

گاؤں میں جھنڈا لگانے سے گردونواح کے سکھ اور ہندو ہمارے خلاف ہوگئے۔ عید سے 2 روز قبل بہت سے ہندو اور سکھ آئے اور کہنے لگے کہ کاکا اپنے مکان سے مسلم لیگ کا پرچم اُتاردو۔ ہم کئی نسلوں سے یہاں اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں۔ ہم نے اکٹھے جینا اور مرنا ہے۔ تم نے یہ جھنڈا لگا کر ہم میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا اسے اُتاردو۔

ایک مسلمان نوجوان پر بھلا ان باتوں کا کیا اثر ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کی باتوں کے جواب میں کہا لالہ جی اب آپ اپنے مکانوں پر کانگریس کا جھنڈا لگالیں۔ یہ تو اب نہیں اُترے گا۔

لالہ جی نے کسی بزرگ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’چوہدری اس بچے کو سمجھالو یہ ٹھیک نہیں کر رہا۔ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔‘ یہ کہہ کر وہ چلے گئے لیکن ان کی طرف سے اس قسم کے پیغامات آنا روزانہ کا معمول بن گیا اور جھنڈا نہ اتارنے کی صورت میں گاؤں کو جلانے کی دھمکیاں دینے لگے۔

عید کے دن گاؤں پر حملے کے خطرے کے پیشِ نظر لوگوں نے دوگروہوں میں نماز ادا کی۔ ایک گروہ نمازیوں کی حفاظت کرتا رہا۔ 2 سے 3 ہندو جن کے نام اب مجھے یاد نہیں ہیں البتہ وہ میرے والد کے دوست تھے شام کے وقت ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے۔

’چوہدری گاؤں میں جھنڈا لگانے کی وجہ سے تمہارے خاندان کا نام سب کے منہ پر ہے۔ تم اپنے بچوں اور خواتین کو کسی دوسری محفوظ جگہ منتقل کردو۔‘

یہ خبر آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ تمام گاؤں والوں نے اپنے بچوں کو منتقل کرنا شروع کردیا۔ ہمارے خاندان کے افراد موضع پھولڑے ماموں کے پاس چلے گئے۔

یہ رات ہم نے گاؤں میں جاگ کر گزاری۔ عید کے دوسرے روز جب میں صبح نہانے لگا تو ایک ہندو جاٹ آیا اور اس نے کہا کاکا تمہارے والد کہاں ہیں۔ یہ ہندو جاٹ میرے والد کا قریبی دوست تھا۔ میں نے جب بتایا کہ وہ رات موضع پھولڑے چلے گئے ہیں تو اس نے کہاں کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو، ہندو اور سکھ مل کر گاؤں پر حملہ کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ تم بھی جلدی سے بھاگ جاؤ۔

یہ ہندو ان حملہ آوروں کا ساتھی تھا لیکن والد صاحب کی دوستی کی وجہ سے حملہ آوروں سے چُھپ کر پہلے ہی ہمیں حملے کے بارے میں بتانے کے لیے آگیا تھا۔

جان بچاکر بھاگنا: میں جس طرح نہا رہا تھا اسی حالت میں بنیان ہاتھ میں پکڑ کر جانگیا پہنے ہوئے ننگے پاؤں اور اپنے بھائی نبی احمد کو پُکارتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ اس طرح ہم دونوں بھائی گاؤں سے جان بچاکر نکلے۔ تھوڑی دُور جاکر ہم نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو گاؤں سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔‘

اس کے بعد کس طرح ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا آغاز ہوا اور کمال الدین و اہلِ خانہ کو پاکستان پہنچنے میں کون سی دشواریاں پیش آئیں، اس بارے میں ہم پھر کبھی ذکر کریں گے۔

پاکستان منتقل ہونے کے بعد کمال الدین کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس لیے انہوں نے طے کیا کہ انہیں دوبارہ انڈیا جانا چاہیے تاکہ ان کی وہ رقوم جو وہاں کئی لوگوں کی ذمے تھیں وہ واپس مل جائے اور پاکستان میں کوئی نیا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسی امید پر انہوں یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ ہر قیمت پر واپس انڈیا ضرور جائیں گے۔ انڈیا واپسی کے اس سفر کو انہوں نے اپنی کتاب میں کچھ یوں بیان کیا ہے،

’بھارت جانے کے لیے ان دنوں ویزا اور پاسپورٹ کی پابندی نہیں تھی، تاہم جانے کا واحد راستہ ہوائی سفر تھا، بلوؤں کی وجہ سے ریلوے بند تھی، جہاز کا ٹکٹ ان دنوں 60 روپے کا تھا لیکن رش کی وجہ سے اس کا حصول تقریباً ناممکن تھا اور میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ میں سیدھا انڈیا کافی ہاؤس کی لاہور برانچ گیا، وہاں پر دہلی میں کافی ہاؤس کے منیجر نواب الدین ہجرت کے بعد تعینات تھے، مجھے دیکھ کر بہت محبت سے ملے، میں نے ان سے دہلی جانے کا تذکرہ کیا اور ایک سو روپے (100) اُدھار مانگے، انہوں نے فوراً مطلوبہ رقم دے کر کہا بوقت ضرورت اور لے لینا جھجھک محسوس نہ کرنا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ایئر انڈیا بکنگ آفس پہنچا، مگر وہاں ٹکٹ ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں 2 سے 3 دن تک وہاں جاتا رہا پھر ایک دن میں نے اندازہ لگایا کہ وہاں ایک نوجوان لڑکا ہے جو میرا کام کرسکتا ہے۔ دوسرے دن میں صبح سویرے وہاں پہنچ گیا اور دیکھا تو وہی لڑکا بکنگ کی کھڑکی کے پیچھے بیٹھا تھا، میں نے معصوم سا چہرہ بنا کر کہا کہ، جناب مجھے 100 روپے کا دہلی کا ٹکٹ دے دیں۔ اس نے میری طرف دیکھا، اور میں نے اب زیادہ معصومیت کے انداز میں کہا کہ جی ہاں مجھے 100 روپے کا دہلی کا ٹکٹ دے دیں حالانکہ ٹکٹ کی قیمت 60 روپے تھی۔ اس نے رقم رکھ کر مجھے 3 بجے آنے کے لیے کہا لیکن میں 2 بجے ہی وہاں پہنچ گیا۔ کھڑکی کھلی تو میں سب سے پہلے کھڑا تھا۔ اس نے مجھے ٹکٹ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی پوچھے تو اپنا نام جوزف کمال بتانا۔ در اصل بکنگ کلرک رش کی وجہ سے جعلی ناموں کی بکنگ کرلیتے تھے۔ پھر اس طرح بلیک میں ٹکٹ دیتے تھے۔

میں جہاز پر سوار ہوکر دہلی پہنچ گیا۔ اس وقت شام کے تقریباً 7 بج چکے تھے۔ میں ائیرپورٹ سے کناٹ پیلس CANOUGHT PLACE بذریعہ بس آیا۔ قریب ہی یونائیٹڈ کافی ہاؤس تھا جو ایک مدراسی مسٹر سندر رام کی ملکیت تھا۔ اس کا منیجر گوپالن میرا دوست تھا کیونکہ میں یہاں مال سپلائی کیا کرتا تھا۔ جیسے ہی کافی ہاؤس پہنچا تو شیشے میں سے گوپالن نے مجھے پہچان لیا۔ نہایت پرتپاک انداز میں ملا۔ خوب خاطر مدارت کی۔ پھر مجھے اپنے گھر لے گیا اور ہجرت کے واقعات کی تمام تفصیل سن کر وہ حیران رہ گیا۔ رات کے تقریباً ایک یا 2 بجے تک یہ طویل داستان جاری رہی۔‘

ہندو کا روپ اختیار کرنا

’اگلے دن صبح گوپالن نے مجھے ایک کُرتا اور دھوتی دیتے ہوئے کہا کہ تم اپنے کپڑے اُتار کر یہ پہن کر کافی ہاؤس آجانا۔ میں ہندوؤں کا لباس پہن کر کافی ہاؤس پہنچ گیا تو مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے میرے ماتھے پر تلک کا نشان بھی لگا دیا۔ اس نے غالباً یہ سب کچھ میری حفاظت کی خاطر کیا تھا لیکن میں حیران تھا کہ اس بھیس میں کس طرح میں اپنے جاننے والوں کے پاس جاؤں یہ تو صریحاً دھوکہ دہی کے مترادف ہے لہٰذا اس دن تو میں کہیں نہیں گیا اور تمام دن یونائیٹڈ کافی ہاؤس میں ہی گزارا۔ اگلے روز گوپالن کے جانے کے بعد اپنے اصل روپ میں انڈیا کافی ہاؤس گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور میرے پوچھے بغیر 6 سے 7 ہزار وپے جو میرے ان کی طرف بقایا تھے فوراً ادا کردیے اور میری خوب تواضع کی۔ بعدازاں میں وائے ڈبلیو سی اے Y.W.C.A گیا، ان کی طرف بھی کچھ رقم واجب الادا تھی۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو وہاں کی انچارج عیسائی خاتون نے کھڑے ہو کر خوش آمدید کہا اور فوراً اپنے کلرک کو آواز دے کر میری فائل منگوائی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ بقایاجات کی ادائیگی کے لیے پاکستان میں Y.W.C.A کو میرے متعلق 2 سے 3 خط لکھ چکی ہیں جن کی نقول بھی فائل میں لگی ہوئی تھیں، ان میں یہ تاکید کی گئی تھی کہ پاکستان کی بیکریوں میں جاکر مجھے تلاش کیا جائے۔ ان خطوط میں میرا دہلی کا مکمل پتہ اور بیکری کا نام تک درج تھا۔ اس نے میرا فوراً حساب بے باق کیا اور اپنے پاس قیام اور گاڑی معہ ڈرائیور کی پیشکش کی۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کی۔

میں ان تمام احباب کے پاس گیا جن کی طرف واجب الادا رقوم مجھے یاد تھیں۔ انہوں نے کسی حیل و حجت کے بغیر ادا کردی۔ جن کے پاس نہ جاسکا اور کم رقم تھی ان کو جب معلوم ہوا تو وہ خود کافی ہاؤس آکر ملے اور رقم دے گئے۔

ہفتہ بھر قیام کے بعد میں نے اپنے گاؤں راجگری جانے کا فیصلہ کیا۔ گوپالن کی دھوتی اور کرتہ پہن کر رات کو ریل گاڑی پر سوار ہوکر روپڑ پہنچ گیا۔

یہاں سے ہمارا گاؤں دریائے ستلج کے پار تقریباً 7 میل دُور تھا۔ میں پیدل ہی موضع میانی پہنچا جہاں سے کشتی میں سوار ہوکر دریائے ستلج پار کیا جاتا تھا۔ کشتی میں بہت سے لوگ سوار تھے، میں بھی ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔

اچانک میری نظر کشتی پر سوار ٹھیکیدار دیس راج پر پڑی، اسی کے پاس کشتی رانی کا ٹھیکہ تھا۔ اس کشتی کا ملاح مسلمان تھا جو عرصہ دراز سے یہ کشتی چلاتا تھا۔ ٹھیکیدار اور اس کا مسلمان ملاح دونوں تقسیم سے پہلے مجھے اچھی طرح جانتے تھے لیکن اس لباس میں کسی نے بھی مجھے نہیں پہچانا۔ جب یہ ملاح کرایہ لینے کے لیے آیا تو میں نے ایک آنہ کرایہ دینے کے بجائے اسے چراغی (بخشش) کے طور پر 2 روپے دیے۔ وہ بہت حیران ہوا۔ اس نے وہ 2 روپے انگلی میں اٹھا کر کہا کہ 5 ماہ بعد یہ پہلا مسافر ہے جس نے 2 روپے چراغی کے طور پر دیے ہیں۔ چوہدری سنڈوریا کے لڑکے کمال الدین کو اللہ خوش رکھے وہ ہمیشہ 2 روپے ہی دیا کرتا تھا۔ لوگ میری طرف متوجہ ہوگئے۔ دیس راج نے بھی میری طرف غور سے دیکھا لیکن وہ مجھے پہچان نہ سکا، آخر ایک شخص نے مجھے پوچھا۔

’تم کون سے گاؤں کے رہنے والے ہو؟‘

میں شرنارتھی ہوں، ہم لاہور سے بھاگ کر آئے ہیں۔ سنا ہے نورپور اور تخت گڑھ میں شرنارتھیوں کے لیے مکان اور دکانیں الاٹ کی جائیں گی۔

وہ یہ سن کر خاموش ہوگیا۔ کشتی آہستہ آہستہ دریا کے پار کنارے پر رک گئی۔ سب لوگ اتر گئے۔ میں ٹھیکیدار دیس راج کے پاس پہنچا اور اسے کہا کہ ٹھیکیدار صاحب آپ سے ایک بات کرنی ہے۔

وہ میرے ساتھ کشتی سے اُترا، ہم چند قدم چلے ہی تھے کہ اس نے مجھے میری چال سے پہچان کر مجھے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔

’او کمال تم۔‘

’تم یہاں کیسے؟ تم لوگ تو پاکستان چلے گئے تھے۔‘

میں نے کہا کہ ہاں میں کمال ہی ہوں لیکن تم نے تو مجھے اس لباس میں پہچانا ہی نہیں۔

’واقعی میں نے نہیں پہچانا۔‘ اس نے کہا۔

’اب تم میرے ساتھ گاؤں چلو گے۔ اس نے ملاح سے کہا کہ تم کشتی لے جاؤ، میں اب صبح ہی آؤں گا۔‘

ہم دونوں ڈیڑھ میل کا سفر طے کرکے اس کے گاؤں ٹِبہ پہنچ گئے۔ میری آمد کا سنتے ہی تمام گاؤں والے جمع ہوگئے۔ میں تقریباً ایک ہفتہ وہیں مقیم رہا۔ ہر روز مجھ سے اتنے لوگ ملنے کے لیے آتے کہ میلے کا سماں لگا رہتا۔

ایک دن ہندو گوجر، پولو نمبردار یہ پیغام دینے دیس راج کے پاس آیا کہ اس نے میرے لیے دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ پولو نمبر دار وہی شخص تھا جو تقسیم کے وقت ہمارے مویشی دینے والد صاحب کے پاس آیا تھا۔ دیس راج نے دعوت قبول کرتے ہوئے کہا کہ ہم 10 سے 15 آدمی آئیں گے۔ دراصل وہ مجھے تنہا نہیں بھیجنا چاہتا تھا اور میری حفاظت کے لیے ان آدمیوں کو ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو میرا بڑا پُرجوش استقبال کیا گیا۔ گاؤں کی اس گزرگاہ کو خوبصورت جھنڈیوں سے سجایا گیا جہاں سے میرا گزر ہونا تھا۔ دعوت میں علاقے کے معززین مدعو تھے جن سے میری ملاقات کرائی گئی، ہر ایک نے ہجرت کے واقعات سننے کی فرمائش کی۔ اس طرح رات 12 بجے ہم واپس موضع ٹبہ آگئے۔

یہاں میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ کے بندوں سے پیار کتنی بڑی دولت ہے۔ اسی بات کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

دراصل ہے مخلوق کی خدمت ہی عبادت

اللہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے

اور

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

جس روز میں ٹھیکیدار دیس راج کے گھر گیا اسی روز کشتی کے ملاحوں کو معلوم ہوگیا کہ وہ مسافر شرنارتھی نہیں بلکہ راجگری والا کمال الدین ہے۔ اگلے دن تخت گڈھ سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی کشتی سے دریا پار کر رہا تھا کہ کسی نے باتوں باتوں میں میرا ذکر کیا، جب اس نے یہ سنا کہ کمال الدین بھارت آیا ہوا ہے تو وہ کشتی سے اتر کر تخت گڈھ جانے لگا، راستے میں لالہ چوہدری میلہ رام اور راجہ رام کے باغ سے گزرا، باغ کے کنویں پر لالہ میلہ رام کا بڑا بیٹا چوہدری بخشی رام نہانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے چڈی پہن کر بنیان بھی نہیں اتاری تھی کہ اتنے میں اس شخص نے کہا۔

لالہ جی راجگری والا چوہدری کمال دیس آیا ہوا ہے۔

بخشی رام اسی چڈی بنیان میں ننگے سر ننگے پاؤں گھوڑی پر سوار ہوکر موضع ٹبہ پہنچ گیا اور آتے ہی مجھ سے لپٹ گیا۔

میلہ رام اور راجہ رام اپنے علاقے تخت گڈھ کے امیر ترین ہندو کھتری تھے۔ پورا علاقہ ان کا مقروض تھا اس لیے لوگ ان کی عزت بھی کرتے تھے۔ بخشی رام کو اس لباس میں دیکھ کر وہ بہت حیران تھے کہ اتنا بڑا آدمی اور اس لباس میں کمال الدین سے ملنے آیا ہے۔

لوگوں کے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ نہانے کی تیاری کر رہا تھا جب اسے کمال الدین کا معلوم ہوا تو یہ سوچ کر کہ کہیں کمال الدین چلا نہ جائے اسی لباس میں گھوڑی پر سوار ہوکر بھاگتا بھاگتا ملنے چلا آیا۔ یہ وہ میل محبت تھی جو عرصہ دراز تک رہنے کی وجہ سے ہمارے اور ان کے خاندانوں میں پائی جاتی تھی لیکن ہم نے اسلام اور اس مقدس سرزمین کی خاطر برسوں کے یہ تعلقات قربان کردیے۔

بہرحال ہفتہ بھر قیام کے بعد میں دہلی لوٹ آیا اور چند ہی دنوں بعد پاکستان واپسی کی تیاری شروع کردی۔ تیاری کیا تھی جو رقم وصول ہوئی اس میں سے سب سے پہلے خاندان کے تمام افراد کے لیے 4، 4 جوڑے کپڑے خریدے کیونکہ ہجرت کے بعد جن حالات سے ہم لوگ دوچار ہوئے تھے اس کا تذکرہ پچھلے صفحات میں کرچکا ہوں۔ کپڑوں اور سردیوں سے بچنے کے لیے سوئیٹر ناگزیر سمجھتے ہوئے خرید کرنا ضروری تھے۔

اب میں نے پاکستان واپسی کا پروگرام بذریعہ ریل بنایا تو گوپالن بہت حیران ہوا اور مجھے کہنے لگا۔

’کمال الدین ریل کے ذریعے پاکستان جارہے ہو؟ ہاں گوپالن! میں نے کہا۔

’عجیب قسم کے آدمی ہو تم، جب پیسہ نہیں تھا تو ادھار پکڑ کر ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی آئے اب جبکہ اچھی خاصی رقم ہے تو ریل سے سفر کر رہے ہو۔‘ گوپالن نے کہا۔

بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت پیسہ نہ ہونے کے باوجود میرا دہلی آنا میری ضرورت تھی اور میں جلد از جلد یہاں پہنچنا چاہتا تھا۔ اب دوبارہ ہوائی جہاز سے جانا بلا ضرورت ہے اور فضول خرچی میں شامل ہے جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا۔

پاکستان پہنچنے کے بعد کمال الدین نے کاروبار کا آغاز کرنا چاہا لیکن وہ اس سلسلے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے کیونکہ وہ بیکری کا کام کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے لیے ضروری تھا کے حکومت کی جانب سے ان کے لیے راشن کا کوٹہ مخصوص کیا جائے۔ وہ اس سلسلے میں محکمہ خوراک کے دفتر کے چکر لگا چکے تھے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔

آخرکار ایک دن انہوں نے ڈائریکٹر فوڈ ڈپارٹمنٹ سے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی کہ حضور میں نے کئی بار راشن کے کوٹے کے لیے درخواست دی ہے لیکن منظور نہیں ہوئی۔ مجھے بیکری کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا۔ ہم نے تو اس پاک وطن کے لیے ہجرت کی تھی کہ ہندؤوں سے نجات مل جائے گی، اپنا ملک ہوگا، مسلمان ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں گے۔ ہم سب کچھ لٹا کر مہاجر بن کر یہاں آئے ہیں، اگر اب بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک ہونا ہے تو مجھے حکم دے دیجیے میں ہندؤوں کی غلامی میں بھارت چلا جاتا ہوں۔‘

ڈائریکٹر فوڈ عقیلی صاحب نے کہا نہیں بھئی اب یہاں پر یہ سب کچھ نہیں ہوگا۔ میری درخواست پر لکھ دیا:

ISSUE HIM RATION CARD FOR HIS BAKERY

’اسے اس کی بیکری کے لیے راشن کارڈ جاری کیا جائے۔‘

میں نے اپنی درخواست میں 15 من میدہ ہفتہ بھر کا کوٹہ لکھا تھا۔ چینی اور گھی عقیلی صاحب نے خود اپنے قلم سے لکھ دیا۔ چپڑاسی کو بلاکر اسے کہا کہ یہ درخواست کلرک کو دے دو۔ پھر مسکرا کر مجھ سے مخاطب ہوئے۔

’جائیے اپنا کارڈ بنوا لیجیے، اب تو تم خوش ہونا!‘

میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور چپڑاسی کے ساتھ کلرک کے پاس چلا گیا۔ کلرک نے درخواست پر آرڈر پڑھ کر میری طرف دیکھا، پھر غور سے درخواست کی طرف دیکھا اور پھر سر اٹھا کر مجھے مخاطب ہوکر کہا کہ عقیلی صاحب نے یہ کیسے لکھ دیا ہے؟ حکومت نے تو کارڈ بنانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ میں نے کہا یہ تو ڈائریکٹر صاحب نے لکھا ہے۔

وہ درخواست لے کر ان کے کمرے میں گیا، میں بھی اس کے ہمراہ تھا۔ اس سے پہلے کہ کلرک کچھ کہتا عقیلی صاحب نے ہمیں آتے ہوئے دیکھ کر کہا کہ ان کا کارڈ بنا دو۔ کلرک اپنا سا منہ لے کر واپس کرسی پر آکر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پوچھا کہ یہ بیکری کہاں ہے۔ میں نے برنس روڈ کا پتہ بتایا تو کہنے لگا کہ چلو مجھے دکھاؤ، میں نے کسی جھجھک کے بغیر فوراً کہا کہ جی آئیے میں آپ کو بیکری دکھاتا ہوں۔

ہم گھوڑا گاڑی پر بیٹھ گئے لیکن راستے بھر میں پریشان ہی رہا کہ بیکری کا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے میں کس طرح اسے بیکری دکھاؤں گا۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ برنس روڈ آگیا۔ ہم اترکر ہوٹل پہنچے۔ کرسی پر کلرک کو بٹھایا اور خود اپنے پڑوسی دکاندار عزیز سائیکل والے سے 50 روپے ادھار لے کر کلرک کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا،

جناب اسی ہوٹل میں بیکری بناؤں گا۔ میں بھارت سے سب کچھ لٹا کر پاکستان آیا ہوں۔ میرے پاس پیسے نہیں کہ میں فوراً بیکری وغیرہ بنا سکوں۔ آپ مجھے راشن کارڈ بنا دیجیے تو ایک دو ہفتے کا کوٹہ مارکیٹ میں بلیک پر بیچ کر منافعے سے بیکری کی بھٹی اور شوروم بنالوں گا۔ یہ 50 روپے بھی میں نے پڑوسی سے ادھار لے کر دیے ہیں۔ کام چل گیا تو خدمت کرتا رہوں گا۔‘

کلرک نے 50 روپے ہاتھ میں پکڑے اور کبھی میری طرف اور کبھی 50 روپوں کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر ایک لمبی سی سانس بھرتے ہوئے کہا،

’چلو یار تمہیں راشن کارڈ بنا دیتا ہوں، تم صاف گو آدمی معلوم ہوتے ہو۔

موجودہ بیکری کے پلاٹ کا حصول

چند دنوں بعد ایک دلال کی معرفت معلوم ہوا کہ ایک ہوٹل والا اپنا ہوٹل پگڑی پر دینا چاہتا ہے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ پر تھا جہاں اب یونائیٹڈ بیکری ہے۔ میں اسی دلال کی معرفت بہادر خان نامی ہوٹل والے سے ملا اور گفت و شنید کے بعد 5 ہزار میں سودا طے پاگیا۔ میں نے بیانہ دے کر رسید حاصل کرلی۔

اس نے وعدہ کیا کہ رسید ہمارے نام تبدیل کرا دے گا، در اصل یہ بلڈنگ پی ایف پریرا نامی ایک مسیحی کی تھی جو اس وقت پریرا بیکری کا مالک بھی تھا۔ اگلے روز جب خان بہادر نے مجھے رسید تبدیل کرانے کے لیے کہا تو میں فوراً اس کے ساتھ چل دیا لیکن جب وہ مجھے پریرا بیکری کے اندر لے جانے لگا تو میں نے کہا۔

’خان بہادر صاحب آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔‘

’یہ اسی مالک کی بیکری ہے۔ ہم رسید تبدیل کرانے اسی کے پاس جا رہے ہیں۔‘

کہ اسی اثنا میں پریرا صاحب اپنے کمرے سے باہر آگئے اور خان بہادر کو دیکھتے ہی فوراً بولے۔

’خان کس کے نام رسید تبدیل کی جائے گی۔‘

اس نے میری جانب اشارہ کیا۔

قدرت کی ایک مہربانی

یہ چند لمحے میری زندگی میں بہت اہم تھے۔ میری آنکھوں میں اندھیرا سا آگیا تھا۔ میں نے خدا کی بارگاہ میں فریاد کی کہ ’اے پروردگار! تیرے علاوہ میرا کوئی مددگار نہیں ہے۔ تو ہمیشہ مصیبت میں اپنے بندوں کے کام آتا ہے۔ تیری ایک نظرِ کرم میری زندگی کی کایا پلٹ سکتی ہے۔‘ میں نے معاملہ خدا کے سپرد کردیا اور ہم اس کے ساتھ کمرے میں بیٹھ گئے۔ پھر یکایک میری آنکھوں کے سامنے ایک روشنی سی پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک بات ڈال دی۔ مجھ سے مخاطب ہوکر اس نے کہا ہاں بھئی کس نام کی رسید بناؤں۔

میں نے کہا۔

’نبی احمد بیکری والا‘

یہی وہ خیال تھا جو قدرت نے میرے دل میں ڈالا۔ میرا جواب سن کر وہ بولا۔

’واٹ (کیا)؟‘

میں نے کہا نبی احمد بیکری والا۔

وہ پھر بولا۔

’?WHAT IS BAKRY WALA (یہ بکری والا کیا ہے؟)‘

میں نے کہا۔

.SIR THIS IS OUR SURNAME (جناب یہ ہمارا خاندانی نام ہے۔)

اس نے فوراً رسید اس نام سے بنادی۔

میں رسید تبدیل کرواکر خان بہادر کے ساتھ واپس ہوٹل آیا اور بقیہ رقم اس کو دے کر 15 جون 1949ء کو دکان کا قبضہ حاصل کرلیا۔ ممکنہ خطرات کے پیش نظر ہفتہ عشرہ تک میں ہوٹل کا کاروبار ہی کرتا رہا۔ پھر ایک دن بیکری کی بھٹی تیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اگلے روز میں نے بھٹی تیار کرنے کے لیے بلاک اور بجری وغیرہ منگوائی تو گرد و نواح کے تمام دکانداروں کو علم ہوگیا اور یہ بات پریرا تک جا پہنچی، اس نے اپنا آدمی بھجوا کر اس کی تصدیق کرائی اور بھٹی بنانے والے کو بلوایا، کیونکہ میں وہاں موجود نہیں تھا۔ اس نے بھٹی تیار کرنے سے منع کردیا اور دھمکی دی کہ اگر کام بند نہ کیا تو تھانہ میں رپورٹ کردوں گا۔

جب میں واپس آیا تو کام بند تھا اور مستری وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے استفسار پر انہوں نے تمام ماجرہ سنایا۔ میں نے دوبارہ کام شروع کرادیا اور جب پریرا کو معلوم ہوا کہ کام دوبارہ شروع ہوگیا ہے تو اس نے صدر تھانے میں جاکر شکایت کی۔ ان دنوں علاقے کے ایس پی مسٹر تھیڈس تھے اور صدر تھانے میں ہی اس کا دفتر تھا۔ پریرا مسیحی تھا اس ناطے سے اس کے انگریز ایس پی سے قریبی تعلقات تھے۔

اگلے روز صبح پریرا ایک پولیس سپاہی کے ہمراہ آیا۔ پریرا اپنی کار میں بیٹھا رہا جبکہ پولیس کا سپاہی (جس کا نام بعد میں معلوم ہوا محمد خان باجوہ تھا اور اب انسپکٹر کے عہدہ سے رٹائر ہوچکا ہے) میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایس پی صاحب نے آپ کو دفتر بلایا ہے۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے۔ اس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں وہ صاحب جو کار میں بیٹھے ہیں شاید اس نے کوئی شکایت کی ہے۔

جب ہم باہر آئے تو اس نے کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئیے اس میں بیٹھ جائیں۔ میں نے غصے میں کہا،

’میں اس کی کار میں جاؤں! نہیں ہرگز نہیں، میں پیدل جاؤں گا۔‘

وہ دونوں کار میں چلے گئے۔ میں تھانہ صدر پیدل ہی پہنچ گیا جو ان دنوں قریب ہی تھا۔ میں جب دفتر پہنچا تو ایس پی صاحب میرے ہی انتظار میں تھے کیونکہ ان کو کہیں جانا تھا۔ اس لیے وہ جلدی میں معلوم ہوتے تھے۔ مجھے مخاطب، ہوکر پوچھا:

’ٹم ادھر کیا بناٹا ہے۔‘

میں نے کہاں جناب کہاں۔

اس کے ہوٹل میں۔

میں نے کہا کہ چولہا بنوا رہا ہوں۔ پریرا بولا، ’نو، نو یہ بھٹی بنا رہا ہے۔‘

ایس پی نے مجھے تنبیہ کی کہ بھٹی وغیرہ فوراً بند کردو، ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

یہ سُن کر مجھے غصہ آگیا، میں نے ایس پی کو کہا:

....MAKING OVEN OR SOMETHING. BECAUSE I HAVE PAID FIVE THOUSAND PAGRI AND HE (MR. PERIARA) HAS CHANGED THE RECEIPT IN MY NAME. IF I AM DOING SOMETHING WRONG THEN HE CAN GO TO THE COURT OF LAW. IT IS NOT A POLICE CASE. PLEASE TELL THIS MAN DO NOT COME TO MY SHOP. IF HE OR HIS SERVANT WILL COME AGAIN I WILL GIVE HIM A LESSON. SIR I AM A REFUGE FROM INDIA. WE LOST EVERY THING. WE CAME TO PAKISTAN EMPTY HANDS. NOW THESE BLOODY NON MUSLIM ARE THREATENING ME. ASSALAM O ALLIKUM.

(میں چولہا یا کچھ بھی بنا سکتا ہوں کیونکہ میں نے 5 ہزار روپے پگڑی کی رقم ادا کی ہے اور اس (پریرا) نے رسید پر میرا نام بھی لکھا ہے۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو عدالت کے دروازے کھلے ہیں۔ یہ کوئی پولیس کیس نہیں ہے۔ مہربانی فرما کر اس شخص کو کہیے کہ یہ میری دکان کا رخ نہ کرے۔ اگر یہ یا اس کا کوئی ملازم میری دکان پر آیا تو میں اسے اچھا سبق سکھاؤں گا۔ جناب میں ہندوستان سے یہاں آنے والا مہاجر ہوں۔ ہم نے سب کچھ کھودیا۔ ہم خالی ہاتھ پاکستان آئے۔ اب یہ غیر مسلم مجھے دھمکا رہے ہیں۔ السلام و علیکم۔)

یہ کہہ کر میں جلدی سے باہر آگیا۔ جانے اللہ تعالیٰ نے ایس پی کے دل میں کیا بات ڈال دی کہ اس نے پھر مجھے دوبارہ نہیں بلایا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے پریرا کو سمجھایا کہ تم کورٹ میں کیس کردو۔

مقدمہ

اس کے بعد پریرا نے کراچی میونسپل کمیٹی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ہمارے علاقے کے انسپکٹر ہیلتھ سے مل کر میرے خلاف کورٹ میں کیس دائر کردیا کہ میں غیر قانونی طور پر بیکری بنا رہا ہوں۔ انسپکٹر ہیلتھ بھی مسیحی تھا جس کا نام رابرٹ تھا۔

جب میرے نام نوٹس آیا تو وہ مقررہ تاریخ کو کورٹ پہنچا۔ کورٹ کے جج صاحب کا نام عبدالرحٰمن تھا جو چوہدری محمد علی صاحب سابقہ وزیرِاعظم کے قریبی رشتے دار تھے۔

جج صاحب نے انسپکٹر رابرٹ سے سوال کیا کہ اس نے کیا خلاف ورزی کی ہے۔ اس نے بات کا پتنگڑ بنا کر ایک لمبی داستان سنادی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ، ’سر اس کے پاس بیکری کا لائسنس نہیں ہے اور مالک کی اجازت کے بغیر بھٹی بنا رہا ہیں۔‘

جج صاحب نے مجھے مخاطب ہوکر پوچھا۔

مجھے یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ جج صاحب مسلمان ہیں اور خود بھی مہاجر ہیں، میں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور نہایت عجز و انکسار سے کہا،

’حضور والا! میں ایک غریب مہاجر ہوں، اس پاکستان کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کرکے یہاں آیا ہوں۔ ہم نے اس مقدس وطن کی خاطر تمام مصائب برداشت کیے، فاقہ کشی کی، اپنے بچوں کو قربان کرکے اس پاک سرزمین کی مٹی میں دفن کیا۔ ان مشکلات کے گرداب سے بمشکل جان بچائی تو عزیز و اقارب سے ادھار پکڑ کر اس ہوٹل کا سودا کیا۔ مالک مکان کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں بیکری والا ہوں اگر چپاتی نہ چل سکی تو نان شروع کروں گا لہٰذا نان بنانے کے لیے مغربی طرز پر تندور بنوایا ہے۔ یہ لائسنس اور رسید آپ دیکھ لیجیے اس میں پہلے ہی سے بیکری والا لکھا ہے۔ اگر میں دروغ گوئی سے کام لے رہا ہوں تو مجھے جو چاہے سزا دیجیے۔ لیکن حضور والا بات یہ نہیں ہے اصل قصہ یہ ہے کہ انسپکٹر رابرٹ اور پریرا دونوں مسیحی ہیں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ڈرا دھمکا کر شاید مجھے واپس انڈیا بھیجنا چاہتے ہیں۔

جناب والا! اب آپ خود ہی انصاف فرمائیے کہ کیا ہم نے اسی لیے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا، کیا ہم اپنے آباؤ اجداد کی قبروں کو خیرآباد کہہ کر اپنا سب کچھ لٹا کر اسی لیے پاکستان آئے تھے کہ یہاں ان جیسے مسلمانوں کے ازلی دشمنوں سے واسطہ پڑے گا۔‘

جج صاحب میری معروضات سے بہت متاثر ہوئے، اس نے رابرٹ سے مخاطب ہوکر کہا۔

مسٹر رابرٹ اگر مرغی کا سالن نہ چلے تو دال سبزی بنانے کے لیے علیحدہ لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے؟

رابرٹ نے جواب دیا۔ ’نو سر۔‘

اگر چپاتی کے بجائے نان کا تندور لگادیا گیا ہو تو کیا لائسنس میں تشریح ہے کہ صرف چپاتی ہی فروخت کی جاسکتی ہے نان نہیں؟

رابرٹ نے پھر جواب دیا، ’نو سر۔‘

کیا اس کی رسید پر بیکری والا لکھا ہوا ہے؟

رابرٹ نے کہا، ’یس سر۔‘

آخر میں جج صاحب نے غصے میں رابرٹ کو مخاطب ہو کر کہا، ’مسٹر رابرٹ اگر آئندہ تم نے اس قسم کی حرکت کی اور کسی مہاجر کو بلاوجہ تنگ کیا تو میں تمہارے خلاف رپورٹ کردوں گا۔ یہ تم کو وارننگ دی جاتی ہے اور یہ کیس خارج کیا جاتا ہے۔‘

آخرکار ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد ان کی بیکری کا کام چل نکلا اور آہستہ آہستہ اس بیکری کی شاخین پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی کھل گئیں۔ لیکن ہر شخص کمال الدین کی طرح ذہین نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنا مؤقف بیان کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیتا ہے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔