ہجرت کی بے شمار کہانیاں ہم سن چکے ہیں، اور ہر ایک کہانی اپنے اندر درد، خوف، امید اور مستقبل کے حوالے سے خدشات لیے ہوتی ہے۔ ایک ایسی ہی کہانی آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے، جو ان سب عوامل کے ساتھ ساتھ نیا جذبہ اور نئی ہمت بھی لیے ہوئے ہے۔
کراچی، اسلام آباد اور پنڈی میں واقع یونائیٹڈ بیکری کے مالک کمال الدین اپنی آپ بیتی ’میری کہانی میری زبانی‘ مطبوعہ دسمبر 1992ء میں ہجرت کی تلخ اور شیریں یادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ،
’پاکستانی پرچم لہرانا: میں نوجوان تھا اور اسلامی جذبے سے سرشار بھی۔ جب حکومتِ برطانیہ کی جانب سے 3 جون کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو میں عید منانے کے لیے گاؤں راجگری گیا اور== میرے ہاتھ میں مسلم لیگ کا پرچم تھا۔ میں نے وطنِ عزیز کے حصول کی محبت اور جوش جوانی میں یہ پرچم اپنے مکان کی چھت پر لگادیا۔ ہمارے پورے علاقے میں یہ چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ راجگری والوں نے پاکستان بنادیا۔ دراصل علاقے کے لوگ ناخواندہ تھے۔ جب انہوں نے مسلم لیگ کا پرچم ہمارے مکان پر دیکھا تو بے ساختہ بول اٹھے کہ راجگری والوں نے پاکستان بنایا ہے۔ ابھی باؤنڈری کمیشن کا اعلان نہیں ہوا تھا اور عام تاثر یہی تھا کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہوگا۔ اس لیے تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں اطمینان سے بیٹھے رہے لیکن اس وقت ہم سب کو حیرت ہوئی جب باؤنڈری کمیشن نے اعلان کیا کہ یہ تمام علاقے بھارت میں شامل ہوں گے۔
گاؤں میں جھنڈا لگانے سے گردونواح کے سکھ اور ہندو ہمارے خلاف ہوگئے۔ عید سے 2 روز قبل بہت سے ہندو اور سکھ آئے اور کہنے لگے کہ کاکا اپنے مکان سے مسلم لیگ کا پرچم اُتاردو۔ ہم کئی نسلوں سے یہاں اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں۔ ہم نے اکٹھے جینا اور مرنا ہے۔ تم نے یہ جھنڈا لگا کر ہم میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا اسے اُتاردو۔
ایک مسلمان نوجوان پر بھلا ان باتوں کا کیا اثر ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کی باتوں کے جواب میں کہا لالہ جی اب آپ اپنے مکانوں پر کانگریس کا جھنڈا لگالیں۔ یہ تو اب نہیں اُترے گا۔