سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک سے کچھ تو بھلا ہوا


جہاں یکم اگست کو سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی ووٹنگ اور نتائج کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں وہیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس عمل سے کچھ بھلا بھی ہوا ہے، کیونکہ ایوان میں ہونے والے ووٹنگ عمل سے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مختلف اصلاحات کی تجاویز بھی پیش کی جا رہی ہیں۔
36 کے مقابلے میں 64 سینیٹروں کی زبردست اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک میں ناکامی نے سیاسی کلچر، پارلیمانی قاعدوں، انتخابی عمل اور سیاسی جماعتوں کے موجودہ حالات کے بارے میں مباحثے کو جنم دے دیا ہے امید ہے کہ یہ مباحثہ ہمارے سیاسی نظام کے بارے میں عوامی آگاہی بڑھانے اور اس نظام کی چند کمزوریوں کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے پر ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ تحریک کو ناکام بنانے کی خاطر زبردست انداز میں ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی۔
وزیراعظم اور وزرا اعلیٰ کے حق میں اعتماد اور ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک کا عمل آئین میں مجوزہ اعلانیہ رائے شماری کے منظرناموں کی واضح مثالیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ قانون سازوں کو ہر قسم کے دباؤ اور پارٹی و دیگر کے خیالات و نظریات سے بالاتر ہو کر ووٹ ڈالنے کی آزادی دی گئی ہے۔ چنانچہ اب یا تو سیاسی جماعتیں انتخاب کی آزادی پر اتفاق کریں جو کہ آئین قانون سازوں کو دیتا ہے، یا پھر آئین میں ترمیم کریں۔