دنیا

'طالبان کےساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کا نہیں امن معاہدہ چاہتے ہیں'

طالبان اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ معاہدہ چاہتے ہیں، ہم بھی طالبان کے ساتھ اچھے معاہدے کے لیے تیار ہیں، زلمے خلیل زاد

امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کا نہیں امن کا معاہدہ چاہتے ہیں۔

دورہ پاکستان مکمل کرنے کے بعد طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچنے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'ہم طالبان کے ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کا نہیں امن کا معاہدہ چاہتے ہیں، ایسا امن معاہدہ جس سے فوج کا انخلا ممکن ہو سکے۔'

انہوں نے کہا کہ 'افغانستان میں امریکا کی موجودگی مشروط ہے اور کوئی بھی انخلا مشروط ہوگا۔'

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ معاہدہ چاہتے ہیں، ہم بھی طالبان کے ساتھ اچھے معاہدے کے لیے تیار ہیں۔'

واضح رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد دو روزہ دورے پر یکم اگست کو پاکستان پہنچے تھے۔

اپنے دورے کے دوران زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں اور افغان امن عمل میں مثبت پیش رفت اور آئندہ کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔

یہ بھی پڑھیں: دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قبول کریں گے، افغان طالبان

اس کے علاوہ انہوں نے عمل کی حمایت میں پاکستان کے ادا کیے گئے کردار اور مستقبل میں پاکستان کی جانب سے ممکنہ طور پر اضافی مثبت اقدام پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں 17 سال سے زائد عرصے سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کوششوں میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں اس کے طالبان سے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔

ان مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ طالبان انہیں کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں اور وہ براہ راست امریکا سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے آئے تھے۔

مزید پڑھیں: افغان امن عمل: امریکی نمائندہ خصوصی کی پاکستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات

تاہم اس تمام صورتحال میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے اور وہ افغانستان میں پائیدار اور مستقل امن اور افغان تنازع کے حل کے لیے اپنی کوششیں کر رہا ہے۔

اسی ضمن میں حال ہی میں امریکا کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن میں کہا تھا کہ وہ وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔