پاکستان

'مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی سیاست کیلئے دیگر جماعتوں کو استعمال کیا'

اپوزیشن کو اب سنجیدہ ہوجانا چاہیے، عوام نے انہیں اس لیے منتخب نہیں کیا کہ وہ روز واک آؤٹ کرتے رہیں،شبلی فراز

سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے سیاسی حیثیت نہ ہونے کے باوجود اس تحریک عدم اعتماد کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی جو تحریک جمع کروائی تھی وہ ناکام ہوگئی ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ ہم نے شروع دن سے کہا تھا اور اسی وجہ سے ہم نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں اور سمجھایا تھا کہ اس تحریک سے ادارے کا وقار، استحکام اور تسلسل مجروح ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر بات چیت کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کے گھر گئے تو انہوں نے ایسا بیان دیا جس سے یہ ظاہر ہوا کہ ہم نے ان سے مدد مانگنے آئے تھے۔

مزید پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام

سینیٹ میں قائد ایوان نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن تو خود اپنی مدد نہیں کرسکتے۔

شبلی فراز نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے سیاسی حیثیت نہ ہونے کے باوجود اس تحریک عدم اعتماد کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا اور مجھے افسوس ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس میں استعمال ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت سے رابطے تھے لیکن انہیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ جو کرنے جارہے ہیں اس سے انہیں ہی نقصان ہوگا۔

خیال رہے کہ اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر 64 اراکین نے حمایت کی تھی جس کے بعد تحریک عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری کی گئی۔

البتہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک ناکام ہوگئیں جس کے سبب دونوں اپنے اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے۔

سینیٹ میں قائد ایوان نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے بنیادی طور پر احتساب سے بچنے کے لیے عدم اعتماد تحریک شروع کی، مولانا صاحب مذہب کا سہارا لیتے ہیں، مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم اور حکومت نے احتساب کی جو مہم شروع کی ہوئی ہے اپوزیشن جماعتیں اس سے چھپ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے سینیٹرز کو بھی اس بات کا احساس تھا اور ان ہی کی مدد سے عدم اعتماد کی یہ تحریک ناکام ہوئی۔

سینیٹ میں قائد ایوان نے کہا کہ ہمیں اپوزیشن سے کوئی گلہ نہیں، ہم نے عوام کے مفاد میں قانون سازی کرنی ہے جس میں ہمیں ان کی مدد درکار ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کے اپنے ارکان نے انتشار کی سیاست مسترد کردی، فردوس عاشق اعوان

شبلی فراز نے کہا کہ یہ صرف صادق سنجرانی کی نہیں ادارے کی جیت ہے، ہم نے جمہوریت کو مستحکم کیا اور ساتھ میں ایوان کے وقار کو پامال نہیں ہونے دیا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو اب سنجیدہ ہوجانا چاہیے، انہیں عوام نے اس لیے منتخب نہیں کیا کہ ان کے کسی رہنما پر کیس ہو یا گرفتار ہوں تو وہ روز واک آؤٹ کریں۔

شبلی فراز نے کہا کہ یہ ایوان اس لیے نہیں ہے کہ اپوزیشن روز واک آؤٹ کرتی رہے، انہیں چاہیے کہ عوام کے مسائل میں حکومت کی مدد کریں، ایوان حکومت اور اپوزیشن مل کر چلاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سینیٹ کو پہلی اور آخری مرتبہ غیر مستحکم کرنے کی اس کوشش میں بڑی جماعتیں بھی شامل تھیں، امید کرتا ہوں کہ انہوں نے اس سے سبق حاصل کیا ہوگا۔

تحریک عدم اعتماد میں ہارس ٹریڈنگ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ سینیٹرز بک گئے، تمام سینیٹرز چاہے وہ حکومت کے ہوں یا اپوزیشن کے وہ باوقار لوگ ہیں،میں اس الیکشن کی گارنٹی دیتا ہوں کہ ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی۔

انہوں نے 2015 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس صرف 5 سینیٹرز تھے اور ہم نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑا تھا اور میں پی ٹی آئی کا امیدوار تھا، اس وقت ہم سینیٹ کے جغرافیے سے بھی واقف نہیں تھے اور اس روز پی ٹی آئی کے امیدوار کو 19 ووٹ ملے تھے تو کیا آپ اسے ہارس ٹریڈنگ کہیں گے؟

مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی کے تمام سینیٹرز نے استعفے بلاول بھٹو کو پیش کردیے

شبلی فراز نے کہا کہ میرا یہ حق نہیں تھا کہ میں پوچھتا کہ 19 ووٹ کیسے ملے، یہ امیدوار پر مبنی ہوتا ہے۔

اس دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ 'کیا شبلی فراز پارٹی کے خلاف ووٹ دے گا؟' جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شبلی فراز کبھی بھی پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں دے گا لیکن جن لوگوں نے سینیٹ کا وقار بحال کیا آپ انہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بکے ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی سے متفق نہیں تھے، یہ خفیہ ووٹنگ ہے، آپ جس طرح کے سوال اٹھارہے ہیں تو مجھے ان 19 ووٹوں کا جواب بھی دیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم 5 سینیٹرز تھے اور ہم کسی کو جانتے بھی نہیں تھے، پہلے مجھے اور عوام کو 19 ووٹوں کا جواب دیں اور پھر ایسے سوال کریں۔