نقطہ نظر سنگاپور کی ترقی کا راز اور پاکستان ایک ملک کو اپنے عوام پر سرمایہ کاری کرنی چاہیےتاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کرسکیں، یوں ملک انہیں بہتر خدمات فراہم کرتا ہے توقیر حسین لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ THE Singapore Story: Memoirs of Lee Kuan Yew سنگاپور کے ترقیاتی اُبھار کے موضوع پر لکھی گئی ایک بڑی ہی دلچسپ کتاب ہے۔ اس ملک کے زبردست ابھار سے چینی رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ اس قدر متاثر ہوئے کہ لی کیوان یو کے پاس تشریف لائے اور ان سے ترقی کے گُر سیکھنے چاہے۔ کچھ دن پہلے جب میں سنگاپور پہنچا تو اس کتاب میں شامل ڈینگ ژیاؤ پنگ سے متعلق لکھی ہوئی یہ باتیں ذہن میں گردش کر رہی تھیں اور میں خود سے سوال کر رہا تھا کہ ہم میں سے کئی لکھاری وقتاً فوقتاً اپنے مضامین میں تجویز دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو ایسے ممالک سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے اپنی معیشت کو معجزاتی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ ہم مضامین میں اکثر و بیشتر چین، جنوبی کوریا، ملائشیا اور سنگاپور کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ کون سے کام تھے جو سنگاپور اپنی اقتصادی ترقی کے لیے انجام دے رہا تھا اور وہ کون سے کام تھے جن سے باز رہا؟ جو اسباق میں نے سیکھے ہیں وہ بہت ہی سادہ ہیں اور آپ کے لیے نئے نہیں۔ سنگاپور کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی کو ایک الگ حیثیت نہیں دی گئی بلکہ ملک کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا ایک حصہ ہی سمجھا گیا۔ معیشت کا تعلق صرف اور صرف معاشیات سے نہیں تھا۔بنیادی طور پر ایک ملک کو اپنے عوام پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کرسکیں، اس طرح ملک انہیں بہتر انداز میں خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس باہمی پیداواری تعلقات کو قائم کرنے کے لیے مساوی مواقع کی فراہمی اور میرٹ کی بالادستی نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کا انحصار ایک دوسرے پر ہوتا ہے، دونوں کے لیے قومی اتحاد کی مضبوط بنیاد اور مقصد کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور تنظیمی تصور درکار ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر تعلیم یافتہ اور منظم انسانی وسائل اور قانون کی حکمرانی کی ایسی شاندار عمارت کھڑی ہوتی ہے جو کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ ترقی کے عروج کو چُھونے کے لیے انسانی وسائل کی کھیپ کی تیاری نہایت اہم تھی جس کے لیے معیارِ تعلیم کا کردار انتہائی اہم رہا جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعلیٰ علوم کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔آخر میں باری آتی ہے بہتر طرزِ حکمرانی کی جو ملک کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ترقی کے دیگر ذرائع پر اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں منعکس بھی کرتی ہے۔ ورلڈ بینک کی درجہ بندی برائے مؤثر حکومت، 2017ء (Government Effectiveness index) میں سب سے زیادہ 2.21 پوائنٹس سنگاپور کو حاصل تھے جبکہ پاکستان درجہ بندی میں 129ویں نمبر کے ساتھ 0.58- پوائنٹس کا حامل رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی خراب طرزِ حکمرانی کی آمد کہاں سے ہوئی؟پاکستان میں کچھ طاقتور گروہ یا ادارے ملک کی سیکیورٹی سے متعلق معاملات، قومی ڈھانچے میں شامل مذہبی عنصر اور جاگیردارانہ سماجی ڈھانچے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عرصے سے ملک کے body politic پر غالب ہیں۔ سیکیورٹی خدشات کی جائز حیثیت اور ان پر مخلصانہ رویے کے باوجود بھی سیکیورٹی پر حد سے زیادہ زور نے قومی ترجیحات اور وسائل کی تقسیم کو یکایک بدل کر رکھ دیا ہے، جبکہ مذہبی اداروں کے حمایت یافتہ جاگیردارانہ نظام نے معاشرے میں تعلیم، حقوق نسواں اور سماجی و اقتصادی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوئے معاشرے میں خود پرور عدم مساوات کو پیدا کیا ہے۔ مذکورہ body politic سے بننے والے سیاسی نظام کو صرف طاقتور اور مراعات یافتہ طبقے کو تقویت پہنچانے کے مقصد سے ڈیزائن کیا جاتا ہے جبکہ یہ قانون کی حکمرانی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ یہ اس جمہوریت کے ’ضرر سے محفوظ‘ رہتا ہے جو اس نظام کے ہاتھوں خود مغلوب بن چکی ہے اور طاقت کے عدم توازن اور سیاسی طاقت، سماجی ڈھانچے، آمدن کی تقسیم اور انصاف کی فراہمی میں عدم مساوات کو برقرار رکھنے میں شریک جرم بنتی جا رہی ہے۔ چنانچہ ایسا نظام جو ملک کو بڑی آسانی کے ساتھ داؤ پر لگا کر اشرافیہ کے لیے ذاتی مفادات کا حصول ممکن بناتا ہے اس کے نتیجے میں انجام پانے والے شخصی اور غیر اداریاتی پالیسی سازی کے عمل کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ احتساب کے فقدان یا پھر اقتدار کھونے کے ڈر کے باعث ایسے لوگ بچ نکلتے ہیں۔ اگر آپ اقتدار کھو بھی دیں تو یہ نظام آپ کی طاقت بحال کردے گا بشرطیکہ آپ نے اس نظام کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہو۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے پُرخطر اور اپنی استطاعت سے باہر حالات سے دوچار رہا ہے۔ یہ ملک دیگر ملکوں کے اسٹریٹجک مقاصد کی انجام دہی، بعض اوقات تو اپنے قومی مفاد کو داؤ پر لگاتے ہوئے اور بنا سوچے سمجھے قرضے لے لے کر خود کو باقی رکھنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ خراب طرزِ حکمرانی اور کرپشن کے لیے امداد اور بھاری قرضے تو بہت پہلے سے ترغیبی مراعت کی صورت بن چکی ہے۔ ان خوفناک نتائج پر ہی نظر ڈال لیجیے۔ پاکستان انسانی ترقی کی رینکنگ، عالمی صنفی عدم مساوات اور عالمی کرپشن کی درجہ بندی میں یا تو سب سے نیچے ہے یا پھر آخری نمبروں پر ہے۔ اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ماضی میں خلافِ ضمیر کام کرنے والے سربراہان کا چہرہ سامنے لاکر ایک بڑا کام کر رہی ہے جو ایک ایسا پاکستان وجود میں لائے جس میں صرف ان کے ذاتی مفاد کو تحفظ حاصل ہوتا تھا۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران ہونے والے حکومتی اخراجات پر ہی نظر ڈال لیجیے، ان میں 500 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس دیوہیکل اخلاقی ناکامی کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔ ایک ایسا ملک جہاں کبھی انقلاب نہیں آیا، قومی مزاحمت نہیں ہوئی، کسی ایک طبقے کی جانب سے اپنے حقوق کی خاطر طویل المدتی جدوجہد نہیں کی گئی، سماجی مہم نہیں چلی اور نہ ہی کوئی غیر معمولی رہنما آیا، یعنی ایسا کوئی عمل نہیں ہوا جو تاریخ ساز سماجی تبدیلی کا باعث بنتا ہو، وہاں موجودہ احتساب اور ٹیکس مہم مذکورہ عوامل کا زیادہ اچھا متبادل نہ سہی لیکن ایک اچھی شروعات ضرور ہے۔ہمیں کچھ سیکھنا ہے تو دیگر ملکوں کا رخ کرنا ضروری نہیں، بلکہ ملک کے اندر ہی بے پناہ ٹیلنٹ اور وہ غیر معمولی علم موجود ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کون سے عناصر تکلیف سے دوچار کرتے ہیں۔اب سوال یہ نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیسے کرنا ہے۔ ہمیں جس چیلنج کا سامنا ہے وہ اقتصادی نہیں بلکہ وجودی ہے۔یہ مضمون یکم اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ توقیر حسین لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔