یورپی یونین نے ایرانی وزیر خارجہ پر امریکی پابندی کو مسترد کردیا
یورپی یونین نے امریکا کی جانب سے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پر لگائی گئی پابندیوں کو مسترد کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین نے اس طعزم کا اظہار کیا کہ وہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ مختلف امور پر ملاقات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے ایرانی ’پاسداران انقلاب‘ کو دہشت گرد قرار دے دیا
خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے 2015 کے تناظر میں ایرانی وزیر خارجہ پر پابندی لگادی تھی، جس کے بعد ان پابندیوں سے جواد ظریف کے امریکا اور امریکی حکومت کے زیر انتظام ممالک میں تمام اثاثے منجمد کردیے جائیں گے اور اس سے ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔
دوسری جانب یورپی یونین نے امریکی فیصلے کو مسترد کرکے ایرانی وزیر خارجہ سے دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال جاری رکھنے کا عندیہ دے دیا۔
اس حوالے سے یورپی یونین کے سفارتی چیف فیڈریکا موگیرانی نے واضح کیا کہ ’ہمیں امریکی فیصلے پر افسوس ہوا‘۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے جواد ظریف کے ساتھ معمول کے مطابق امور جاری رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایرانی وزیر خارجہ انتہائی سینئر سفارتکار ہیں تاہم اس تناظر میں ضروری ہے کہ ان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بدستور استوار رکھا جائے۔
مزیدپڑھیں: 'پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا گیا تو امریکا کو جواب دیں گے'
یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے اعلان اور ایران پر پابندی کے دوبارہ نفاذ کے بعد ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے، جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران، امریکی صدر کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ’امریکی جارحیت ناقابلِ قبول ہے‘۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پر پابندی
امریکا نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایران کے اعلیٰ سفارتکار کے لیے اپنے ملک کے دروازے بند کردیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان پابندیوں سے جواد ظریف کے امریکا اور امریکی حکومت کے زیر انتظام ممالک میں تمام اثاثے منجمد کردیے جائیں گے اور اس سے ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔
امریکا کے سیکریٹری خزانہ اسٹیون مناچن کا کہنا تھا کہ ’جواد ظریف ایران کے سپریم لیڈر کا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں اور وہ دنیا بھر میں ایرانی حکومت کے مرکزی ترجمان ہیں، امریکا ایرانی حکومت کو واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ ان کا حالیہ رویہ ناقابل قبول ہے‘۔
واضح رہے کہ جواد ظریف پر لگائی گئی پابندی وہی ہے جو اس سے قبل ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای پر لگائی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: ایران کا یورینیم افزودگی کی حد سے تجاوز کرنے کا نیا اعلان
تہران کو دیئے گئے پیغام میں واشنگٹن نے 2015 کے جوہری معاہدے کے دیگر فریقین، جن میں چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ شام ہیں، کو ناراض کرنے سے بچنے کے لیے 3 ایرانی سول نیوکلیئر منصوبوں کو مزید چھوٹ دی۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن کا کہنا تھا کہ ’چھوٹ صرف 90 روز کے لیے دی گئی ہے، ہم ان تمام جوہری اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی روزانہ اسکروٹنی کی جاتی ہے‘۔
خیال رہے کہ جواد ظریف، ایران کے جوہری قوت کی صنعت پر دیگر ممالک کے اعلیٰ حکام سے بات چیت میں مصروف عمل تھے۔
تہران کا کہنا تھا کہ ہے کہ ان کا منصوبہ پر امن ہے، مگر واشنگٹن اور خطے میں اس کے دیگر اتحادی بشمول اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ خفیہ ہتھیاروں کے پروگرام کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر حکام کا کہنا تھا کہ جواد ظریف کی انگریزی میں فراوانی، طنز و مزاح اور امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے ان کی سفارتی تصویر جھوٹی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا اپنا جہاز چھوڑنے کے بدلے برطانوی جہاز چھوڑنے کا اشارہ
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ ’مسئلہ صرف اتنا ہے کہ انہوں نے سنجیدہ ہونے کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے‘۔
حکام کا کہنا تھا کہ ’آج صدر ٹرمپ نے جواد ظریف کو وزیر خارجہ کی بجائے پروپیگنڈا وزیر کا الزام عائد کرتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کیا ہے‘۔
جواد ظریف نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے واشنگٹن پر ایران کو عالمی سطح پر خاموش کرنے کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکا کی مجھ پر عائد پابندیوں کی وجہ یہ ہے کہ میں ایران کا دنیا میں مرکزی ترجمان ہوں، یہ حقیقت کیا اتنی درد ناک تھی؟‘
ایرانی صدر حسن روحانی نے ان پابندیوں کے حوالے سے کہا کہ ’جواد ظریف نے دکھا دیا کہ امریکا اعلیٰ سفارت کاروں سے خوفزدہ ہے‘۔
جواد ظریف کا اقوام متحدہ کا دورہ
اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ واشنگٹن، جواد ظریف کی عالمی سطح پر سفارتکار کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت کو بھی کم کرنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ اس کے باوجود بھی نیو یارک میں قائم اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرسکیں گے۔
انتظامی حکام کا کہنا تھا کہ ’امریکا ہماری ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ہماری مدد جاری رکھے گا‘۔
گزشتہ ماہ سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ جواد ظریف کو ویزا جاری کیا جائے گا لیکن وہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کے 6 بلاک کے اندر تک محدود رہیں گے۔
گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر براک اوباما اور 6 ممالک کی جانب سے کیے گئے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے تہران پر معاشی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں: یورینیم افزودگی کا تنازع: ایران آگ سے کھیل رہا ہے، امریکا
ایران کی جانب سے رواں سال جون میں امریکی ڈرون گرائے جانے پر جون میں کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد انہوں نے ایران کے خلاف فوجی حملے کو آخری لمحات میں منسوخ کیا تھا۔
دوسری جانب ناقدین نے جواد ظریف کو نشانہ بنانے کی قانونی و سفارتی وجوہات کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور کہا کہ اس پابندی سے مذاکرات کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
ریپبلکن کے سینیٹر رانڈ پول نے ٹوئٹ کیا کہ ’اگر آپ سفارتکاروں پر پابندی عائد کریں گے تو اس سے سفارتکاری متاثر ہوگی‘۔
انتظامیہ کے سینئر حکام نے کہا کہ واشنگٹن اب بھی مذاکرات چاہتا ہے مگر جواد ظریف کے ساتھ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی سفارتکار، جواد ظریف کو ہمارے رابطے کا مرکز نہیں سمجھتے‘۔
دریں اثنا جواد ظریف نے خود پر لگی پابندیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میرا ایران سے باہر کوئی اثاثہ یا مفاد نہیں، اس سے مجھ پر یا میرے اہلخانہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، مجھے اپنے ایجنڈا کے لیے اتنا بڑا خطرہ سمجھنے کے لیے شکریہ‘۔