دنیا

برطانیہ کا انسانی اسمگلنگ کے متاثرین کو ملک میں رہنے کا حق دینے سے انکار

جدید غلامی کے خاتمے اور متاثرین کو تعاون فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ترجمان برطانوی وزارت داخلہ

برطانیہ نے حکام کی جانب سے تصدیق کے باوجود انسانی اسمگلنگ کا شکار سیکڑوں متاثرین کو ملک میں رہنے اور تعاون کی خدمات تک رسائی کا حق دینے سے انکار کردیا۔

برطانوی خبررساں ادارے ’ رائٹرز ‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا کہ 2015 سے 2017 میں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت برطانیہ کی وزارت داخلہ نے 752 افراد کو ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی جو انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئے تھے۔

برٹش ریڈ کراس، ہیسٹیہ اور آشیانہ کی رپورٹ کے مطابق تمام افراد غیر یورپی ممالک جیسا کہ ویتنام اور نائیجیریا سے تھے، یہ فلاحی تنظیمیں غلامی کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کرتی ہیں۔

ہیسٹیہ کے آپریشنز ڈائریکٹر ابیگیل امپوفو نے کہا کہ ’ ہمارے معاشرے میں جدید غلامی وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے اور اس سلسلے میں متاثرین کو اپنی زندگیاں دوبارہ سے شروع کرنے میں مدد کے لیے طویل المدتی تعاون کی ضرورت اہم ہے‘۔

مزید پڑھیں: برطانیہ نے ’ معاہدے کے بغیر بریگزٹ‘ کی تیاریاں شروع کردیں

انہوں نے کہا کہ ’ ہم جانتے یں کہ اس تعاون کے بغیر اکثر متاثرین کو زبردستی غلامی میں واپس دھکیل دیا جاتا ہے اور استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے‘۔

برطانیہ میں غلامی کا شکار ہونے والے افراد نیشنل ریفریل میکنزم کے تحت مدد حاصل کرسکتے ہیں جبکہ حکومت ان کے کیسز پر غور کرتی ہے جس میں چند ہفتوں سے لے کر کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔

برطانوی حکومت نے کہا کہ فروری سے لے کر اب تک تصدیق شدہ متاثرین کو 90 روز کا اضافی تعاون فراہم کیا جارہا ہے جبکہ ماضی میں 45 دن فراہم کیا جاتا تھا۔

انسداد غلامی کے سرگرم کارکنان کے مطابق ’ ان افراد کو مزید مدد کا حق حاصل نہیں نہ ہی انہیں ملک میں مقیم رہنے کا حق دیا جاتا ہے، جو متاثرین کو بے گھر ہونے یا مزید استحصال کے خطرات سے دوچار کردیتا ہے‘۔

برٹش ریڈ کراس کی ہیڈ آف پالیسی اور ایڈووکیسی ناؤمی فلیپس نے کہا کہ ’ یہ صورتحال خاص طور پر ان افراد کے لیے زیادہ خراب ہے جنہیں محفوظ امیگریشن حاصل نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ اکثر مرتبہ ہم ان افراد کو استحصال کی طرف واپس جانے کے خطرات میں گھرا دیکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے رہنے اور کھانے کی جگہ ڈھونڈنے میں ناکام ہوتے ہیں‘۔

فلاحی تنظیموں نے برطانوی حکومت سے متاثرین کے لیے تعاون کی مدت میں 12 ماہ کی توسیع دینے اور انہیں کم از کم 30 ماہ تک ملک میں قیام کی اجازت دینے پر زور دیا ہے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو دوبارہ سے شروع کرسکیں۔

نوٹنگھم یونیورسٹی کے محقیقن کے مطابق ایک برس کے تعاون کی فراہمی سے برطانیہ کی عوامی دولت میں 66 لاکھ پاؤنڈ ( 81 لاکھ ڈالر ) کا اضافہ ہوگا کیونکہ غلامی سے بچ نکلنے والے افراد کو روزگار حاصل ہوگا اور میڈیکل اور ہاؤسنگ سروسز کی ضرورت میں کمی آئے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

برطانوی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ جدید غلامی کے خاتمے اور متاثرین کو تعاون فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا بذریعہ ای میل بھیجے گئے بیان میں کہا کہ ’ ہم نے رواں برس کے آغاز میں متاثرین کے تعاون میں اہم اضافہ کیا ہے جس میں ایک فرد کو فراہم کی جانے والے کی مدت بھی شامل ہے‘۔

ترجمان نے کہا کہ ’ ہم موجودہ سروسز میں بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متاثرین کی ضروریات پوری ہورہی ہیں‘۔

خیال رہے کہ برطانیہ ماڈرن سلیوری ایکٹ 2015 منظور کرکے خود کو انسداد غلامی کی مہم میں عالمی رہنما قرار دے چکا ہے۔


یہ خبر 31 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی