ایشیز سیریز: بہترین ٹیسٹ کرکٹ ہماری منتظر ہے
1882ء کے موسم گرما میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ ایک دلچسپ مقابلے کے بعد آسٹریلیا کی فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔
اوول کے میدان میں کھیلا جانے والا یہ میچ یوں یادگار بن گیا کہ یہ سلطنتِ برطانیہ کی اپنے گھر میں کولونیل آسٹریلیا سے پہلی شکست تھی۔
اس میچ میں برطانوی ٹیم فیورٹ تھی اور 3 روزہ ٹیسٹ کے دوسرے دن صرف 85 رنز کے ہدف کے حصول کے لیے میدان میں اتری تھی۔ 51 رنز پر تیسری وکٹ کھونے والی ٹیم کو بقیہ 34 رنز بنانے کے لیے 7 وکٹوں کی سہولت دستیاب تھی لیکن آسٹریلوی فاسٹ باؤلر فرد اسپوفورتھ کے ایک طوفانی اسپیل نے اننگز 77 رنز پر سمیٹ دی۔
یہ سب کچھ انگریز شائقین کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ کھیل کی تاریخ کا یہ صرف 9واں میچ تھا اور کرکٹ ابھی آسٹریلیا اور انگلینڈ سے باہر نہیں نکلی تھی۔
پھر یہاں سے کھیل کی سب سے مسابقت بھری سیریز کا آغاز ہوا جسے دنیا نے ایشیز کے نام سے جانا۔ پہلی ایشیز سیریز اسی سال یعنی 1882ء میں برطانیہ کے جوابی دورہ آسٹریلیا میں کھیلی گئی اور 3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل یہ سیریز برطانیہ نے 1-2 سے جیت لی۔
آج ان مقابلوں کو تقریباً 137 سال ہونے کو آئے ہیں، لیکن ان کی عوامی مقبولیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ آج کے تیز ترین دور میں جب ساری دنیا 20 اوورز کے مقابلوں کو ترجیح دیتی ہے، ایشیز نے اپنا فین بیس نا صرف قائم رکھا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔
کرکٹ پر بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے ویسٹ انڈیز کا عروج ہو یا پاکستان اور ہندوستان کے مابین مسابقت کے نئے معیارات، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایشیز سیریز کی مقبولیت کو کوئی نہیں چُھو سکا۔ ایشیز کا تازہ ایڈیشن یکم اگست سے شروع ہو رہا ہے، لہٰذا ہم نے دونوں ٹیموں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
انگلینڈ
انگلینڈ کی ٹیم اس بار مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ ورلڈ چیمپئن کا ٹائٹل اپنے نام کیے اس ٹیم کو ابھی 2 ہفتے ہی گزرے ہیں۔ گوکہ یہ سب بہت متنازع انداز میں ہوا تاہم فاتح کا تاج انہی کے سر سجا ہوا ہے۔
اس ورلڈ کپ کے بعد آئر لینڈ کے خلاف کھیلا جانے والا واحد ٹیسٹ میچ بھی بہت ڈرامائی رہا۔ انگلینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی تو معترضین نے جعلی ورلڈ چیمپئن جیسی پھبتیاں بھی کسیں لیکن انگلش ٹیم نے آخری اننگز میں سارا غبار اتار دیا اور آئر لینڈ کو گزشتہ 64 سالوں میں سب سے کم ٹیسٹ اسکور 38 رنزپر آل آؤٹ کر دیا۔
مضبوط مڈل آرڈر
اصل میں ورلڈ چیمپئن انگلینڈ اور ٹیسٹ کھیلنے والی انگلینڈ کو علیحدہ دیکھنا چاہیے۔ ویسے بھی سرخ گیند اور سفید گیند کی کرکٹ میں بہت فرق ہے۔ انگلینڈ کی موجودہ ٹیم کی سب سے بڑی طاقت ان کا مضبوط ترین مڈل آرڈر ہے۔ نمبر 4 سے لیکر نمبر 7 تک سارے ہی کمال بلے باز اس ٹیم میں شامل ہیں۔
کپتان جو روٹ دورِ حاضر کے 5 بہترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں تو جونی بیئرسٹو اور بین اسٹوکس اس مڈل آرڈر کی مزید شان بڑھاتے ہیں۔ اگر کوئی کمی رہ جائے تو جوز بٹلر موجود ہیں۔ جوز بٹلر جیسا بلے باز کسی بھی ٹیم کے لیے نعمت سے کم نہیں، کیونکہ وہ تیز رنز کرکے میچ کا پانسہ چند ہی اوورز میں پلٹنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا جدید ٹیسٹ کرکٹ میں بٹلر ایک بونس ہیں۔