افغانستان: 6 ماہ میں تقریباً 4 ہزار شہری ہلاک ہوئے، اقوامِ متحدہ
کابل: سال 2019 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران 3 ہزار 812 شہری ہلاک ہوچکے ہیں جس میں حکومتی اور غیر ملکی افواج کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں بھی خاصہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق اقوامِ متحدہ نے ہلاکتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار طالبان اور امریکا کے مابین 18 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے پیشِ نظر کیے جانے والے مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہونے پر جاری کیے۔
تاہم تمام تر سفارتی کوششوں، کے باجود افغان شہری مسلسل عسکریت پسندوں کا نشانہ بننے، جنگ کی زد میں آنے یا افغان اور غیر ملکی فوج کے فضائی حملوں کا شکار بننے کے خوف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'داخلی حملے' میں افغان فورسز کے ہاتھوں 2 امریکی فوجی ہلاک
افغانستان میں موجود اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ مشن (یو این اے ایم اے) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ زیادہ تر شہریوں کی ہلاکتیں زمینی جھڑپوں میں ہوئیں جس کے بعد بم دھماکے اور فضائی حملے بڑی وجوہات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان اور داعش جنگجوؤں نے یکم جنوری سے 30 جون تک 531 افغان شہری ہلاک جبکہ ایک ہزار 437 زخمی کیے۔
دہشت گرد گروہوں نے جان بوجھ کر 985 شہریوں کو نشانہ بنایا جس میں حکومتی عہدیدار، قبائلی عمائدین، امدادی رضاکار اور مذہبی عالم شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ حکومت کی حمایت یافتہ افواج نے 6 ماہ کے عرصے کے دوران 717 افغان شہری قتل اور 680 شہری زخمی کیے، یہ تعداد 2018 کے اسی عرصے کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سے 31 فیصد زائد ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا میں جاری تنازعات، 2018 میں بچوں کی ریکارڈ ہلاکتیں
مختلف حملوں میں افغانستان بھر میں 6 ماہ کے دوران 144 خواتین اور 327 بچے مارے گئے جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے جس میں سے فضائی حملوں میں 519 شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں جس میں 150 بچے شامل تھے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چیف رچرڈ بینیٹ کا کہنا تھا کہ’انسانی نقصان سے بچنے کے لیے نہ صرف عالی انسانی قوانین پر عملدرآمد کرنا بلکہ لڑائی کی شدت میں کمی بھی ضروری ہے جس سے افغان شہریوں کی مشکلات میں کمی ہوسکے گی‘۔