جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب نے 2 ارب روپے سے زائد کی پہلی پلی بارگین منظور کرلی
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) راولپنڈی نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 2 ارب 12 کروڑ روپے پر مشتمل پہلی پلی بارگین منظور کرلی۔
واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب عرفان نعیم منگی جعلی اکاؤنٹس کیس کی نگرانی کررہے ہیں اور یہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی پہلی ریکوری ہوگی جو نیب کرے گا۔
اس حوالے سے جاری اعلامیے کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ملوث عوامی عہدہ رکھنے والے شخص، قانونی شخصیت اور دیگر کے خلاف سندھ نوری آباد پاور کمپنی اور سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (ایس ٹی ڈی سی) کے منصوبوں میں ٹیکنومین نیٹک پرائیویٹ لمیٹڈ اور دیگر کو غیر قانونی فائدہ دینے اور فنڈز کے غلط استعمال سے متعلق تحقیقات میں پلی بارگین کی رقم وصول کی جائے گی۔
اعلامیے کے مطابق ٹیکنومین نیٹکس، سندھ نوری آباد پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ، سندھ نوری آباد پاور کمپنی لمیٹڈ فیز 2 کے ڈائریکٹرز اور ملزم آصف محمود اور عارف علی سرکاری افسران اور دیگر کی ملی بھگت سے سندھ میں بجلی کی پیداواری منصوبوں میں کرپشن، اضافی شرح میں ملوث پائے گئے۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب کی آصف زرداری کی ضمانت مسترد کرنے کی درخواست
نیب کے مطابق تحقیقات کے دوران دونوں ملزمان نے نیب حکام کو 2 ارب 12 کروڑ روپے کی پلی بارگین کی درخواست جمع کروائی تھی، جسے نیب نے منظور کرتے ہوئے حتمی منظوری کے لیے نیب تفتیشی ٹیم درخواست احتساب عدالت میں جمع کرائے گی۔
احتساب کے ادارے کے بیان میں کہا گیا کہ نیب راولپنڈی چیئرمین کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے ملزم حیثیت سے قطع نظر میرٹ پر تمام کرپشن کیسز کو مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔
جعلی اکاؤنٹس کیس
خیال رہے کہ سال2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور بڑے بڑے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے ابتدائی طور پر معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد گزشتہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ تحقیقات ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: سندھ بینک کے صدر سمیت 3 افسران گرفتار
15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی اور ساتھ ہی آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
معاملے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد آصف زرداری اور فریال تالپور نے ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جو مسترد ہوگئی تھی، جس کے بعد دونوں شخصیات کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں جولائی کے اوائل میں ہی قومی احتساب بیورو نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے بزنس پارٹنر اور سندھ بینک کے صدر سمیت 3 سینئر افسران کو کراچی سے گرفتار کرلیا تھا۔