دنیا

بھارت میں ایک ساتھ 3 طلاق دینے پر سزا کا بل پھر منظور

بل کے حق میں 302 اور مخالفت میں 78 ووٹ دیے گئے جسے اب منظوری کے لیے راجیا سبھا میں پیش کیا جائے گا۔

بھارت کی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ایک مرتبہ پھر کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور ترینامول کانگریس نے بل پر رائے شماری کے بعد واک آؤٹ کیا جس کے حق میں 302 اور مخالفت میں 78 ووٹ دیئے گئے۔

بل پر رائے شماری کے خلاف جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) جماعت، جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتحادی ہے، کے رکن نتیش کمار وہ بھی واک آؤٹ کرگئے۔

جنتا دل یونائیٹڈ جماعت مذکورہ بل کے خلاف رہی ہے اور پارٹی نے آج بھی موقف اپنایا کہ ایسے قانون سے معاشرے میں اعتماد کی کمی پیدا ہوگی۔

تین طلاقوں پر سزا کا بل اب منظوری کے لیے راجیا سبھا میں پیش کیا جائے گا تاہم آج (25 جولائی کو) رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں ترامیم کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دینے والے اراکین نے کہا ہے کہ وہ بِل کی مخالفت کریں گے۔

مزید پڑھیں: بھارت: ایک ہی وقت میں تین طلاق کا عمل غیر آئینی قرار

جنتا دل پارٹی کی نوین پٹنائک اور وائی ایس آر کانگریس نے پہلے ہی راجیا سبھا میں بل پر اعتراض اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

نئے قانون میں تین طلاقیں ایک ساتھ دینے والے مسلمان مردوں کو جیل کی سزا شامل ہے جسے اپوزیشن نے ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے تجویز دی ہے کہ اسے مزید جائزے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے۔

تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل صنفی امتیاز کے فروغ کے لیے اہم ہے، حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یہ وزیراعظم کے نئے مقصد ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کا حصہ ہے۔

بل متعارف کرواتے ہوئے یونین وزیر روی شنکر پرساد نے کہا کہ یہ صنفی انصاف سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اور ملائیشیا سمیت دنیا کے 20 مسلم ممالک میں تین طلاقوں پر پابندی ہے تو سیکولر بھارت میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تین طلاقوں پر سزا سے مسئلہ کیا ہے؟ کوئی اس وقت اعتراض نہیں اٹھاتا جب ہندوؤں اور مسلمانوں کو جہیز کے قانون یا گھریلو تشدد ایکٹ کے تحت قید کی سزا دی جاتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود طلاق بل لوک سبھا سے منظور

روی شنکر پرساد نے کہا کہ 2 برس قبل سپریم کورٹ سے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیئے جانے کے باوجود تین طلاقوں کا رجحان آج بھی موجود ہے، اس وقت سے لے کر اب تک ایسے کئی کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔

لوک سبھا میں کانگریس رہنما کے سریش نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ بل کے تعارف کو خفیہ رکھا جارہا ہے۔

اے این آئی ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ شب حکومت نے تین طلاقوں پر سزا کے بل کو آج کے ایجنڈے میں رکھا اور قومی میڈیکل کمیشن بل اور ڈی این اے ٹیکنالوجی ریگولیشن بل کو کسی کے علم میں لائے بغیر منسوخ کردیا، وہ اتنا خفیہ کیوں رکھ رہے ہیں۔

روی شنکر پرساد نے کہا کہ حکومت کہتی ہے اپوزیشن اس مسئلے کو سیاست زدہ کر رہی ہے، اس مسئلے کو سیاسی نقطہ نظر سے نہ دیکھیں، یہ انصاف اور انسانیت، خواتین کے حقوق کا مسئلہ ہے، ہم اپنی مسلمان بہنوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔

تین طلاقوں پر سزا کا بل کیا ہے؟

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق شادی سے متعلق مسلمان خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل 2019 میں لوک سبھا میں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے گزشتہ سال 21 جون کو پیش کیا تھا۔

مذکورہ بل کے تحت ایک ہی وقت میں 3 مرتبہ طلاق دینا قابل سزا جرم ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں لوک سبھا میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا تھا, تاہم انتخابات کے باعث قانون سازی کا عمل رک گیا تھا۔

2017 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

بعد ازاں عدالتی فیصلے کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے پارلیمان میں بل پیش کرنے کی تیاریاں شروع کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: کانگریس کا بیک وقت 3 طلاقیں دینے پر سزا کو ختم کرنے کا عندیہ

بعد ازاں 2017 ہی میں اس سلسلے میں ایک بل لوک سبھا سے منظور کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے بعد اس بل کو ترمیم کے بعد دوبارہ ایوان زیریں میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

تاہم یہ بل حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہونے کے باوجود منظور ہوگیا۔

تاہم جب ایوانِ بالا (راجیا سبھا) میں بیک وقت 3 طلاقوں کو ناقابلِ ضمانت جرم بنانے کا بل پیش کیا گیا تو کانگریس اور کچھ دیگر جماعتوں کی مزاحمت کے باعث یہ منظور نہیں ہوسکا تھا، جس کے بعد حکومت نے اس پر خصوصی حکم نامہ جاری کردیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم قوانین کے مطابق خاوند اپنی اہلیہ سے رشتہ ختم کرنے کے لیے 3 مرتبہ طلاق کے الفاظ کہتا ہے تاہم اس حوالے سے مسلم اسکالرز میں متضاد رائے پائی جاتی ہے، کچھ کا ماننا ہے کہ مرد کی جانب سے ایک ہی ساتھ طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کہنے سے یہ رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

تاہم دیگر کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کی روح سے 3 طلاقوں کے درمیان مخصوص عرصہ درکار ہے۔

بھارت میں رہنے والی اقلیتوں میں 15 کروڑ 50 لاکھ مسلمان بھی شامل ہیں جو اپنے ذاتی قوانین کے مطابق ان معاملات میں فیصلوں کے لیے آزاد ہیں، جس کا مقصد ہندو اکثریت والے ملک بھارت میں ان کی مذہبی آزادی تسلیم کرنا ہے۔