قوانین پر عملدرآمد میں مشکلات، سیکڑوں قیدی بچے انصاف کے منتظر
کراچی: پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں اب بھی نابالغ افراد کو سخت سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ قوانین پر عملدرآمد میں پیچیدگیاں ہیں۔
عربی خبررساں ادارے کی ویب سائٹ اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں اب بھی سیکڑوں ایسے قیدی موجود ہیں جو سزائے موت اور دیگر سخت سزاؤں کے منتظر ہیں جبکہ یہ ایسے قیدی ہیں جو کم عمر ہیں یا جب انہوں نے جرم کیا تھا تو وہ بچے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 160 ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کے کنونشنز کے تحت 18 سال سے کم عمر میں جرم کرنے والوں کو سزائے موت نہ دینے کے بارے میں قانون سازی کی ہوئی ہے۔
ملک بھر میں ایسے قیدیوں کی تعداد کے بارے میں بات کی جائے تو سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے اعداد و شمار واضح نہیں لیکن مجموعی طور پر لگائے گئے اندازوں کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں تقریباً ایک ہزار ایسے قیدی موجود ہیں جن سے کم عمری میں جرائم ہوئے۔
مزید پڑھیں: اب 18سال سے کم عمر بچوں کو جیل میں قید نہیں کیا جائے گا
اس بارے میں غیرمنافع بخش تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں اس وقت ایک ہزار 225 ایسے قیدی ہیں جو بچے ہیں یا پھر جرم کرتے وقت ان کی عمر کم تھی اور وہ بچوں میں شمار ہوتے تھے۔
تاہم تنظیم کے مطابق سال 2014 سے اب تک 6 ایسے ملزموں کو سزائے موت سنائی گئی جنہوں نے جب جرم کیا تھا تو وہ بالغ نہیں تھے۔
اس کے علاوہ ملک کی جیلوں میں 3 لوگ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے جرم کیا تو وہ بالغ نہیں تھے لیکن اس کے باوجود عدالتوں نے انہیں سزائے موت سنائی، جس پر وہ عملدرآمد کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسری جانب تمام صورتحال پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے پیش کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2004 سے 2019 (یعنی 15 برس) میں 5 ایسے افراد کو سزائی موت سنائی گئی جنہوں نے کم عمری یا بچپن میں جرم کیا تھا جبکہ ایک شخص کو سزائے موت دی بھی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے سال 2015 میں جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ تھا کہ اُس وقت پاکستان میں سزائے موت کے 8 ہزار قیدیوں میں سے سیکڑوں کے بارے میں یہ امکان تھا کہ انہوں نے بچپن میں جرم کیا۔
تاہم حکومت اس بارے میں معلومات فراہم کرنے سے اجتباب برتتی ہے اور وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق اس طرح کی معلومات عوام کے لیے فراہم نہیں کی جاسکتی۔
کم عمر لوگوں کو سزائے موت نہ دینے کے بارے میں قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کہتے ہیں کہ اس قانون کے نفاذ میں مشکلات ہیں کیونکہ ملک میں نہ تو بچوں کی عدالتیں قائم ہوئی ہیں اور نہ ہی گرفتار ملزمان کی عمر کے تعین کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ سال 2018 میں ایک قانون لاگو کیا گیا تھا جس کے تحت ایسے افراد جن کی عمر 18 سال سے کم ہو انہیں سزائے موت نہیں دی جاسکتی بلکہ ان پر درج مقدمات بھی خصوصی طور پر قائم کی گئی ’بچوں کی عدالتوں‘ میں چلائے جاسکتے ہیں۔
اس حوالے سے معروف وکیل حنا جیلانی کہتی ہیں کہ ابھی صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بچوں کی عدالت قائم کی گئی جبکہ پاکستان میں ملزمان کی عمر کے تعین کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: 10 سالہ بچے کی 11 سال بعد رہائی کا حکم
رپورٹ کے مطاب حنا جیلانی نے بتایا کہ ’جوونائیل جسٹس سسٹم ایکٹ، جسے حال ہی میں پاس کیا گیا، اس کے ابھی تک ضوابط ہی نہیں بنے جبکہ اس ایکٹ کے یہ ضوابط بننا ضروری ہیں کہ جیلوں میں کم عمر قیدیوں کی عمر کا تعین کیسے کیا جائے گا اور بچوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جائے گا۔
ادھر جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی سربراہ سارہ بلال کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر ملزمان کے ساتھ جیلوں میں وہ سلوک نہیں کیا جاسکتا جو بالغوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پیدائش کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے عمر کا درست تعین نہیں ہوتا اور یہ کم عمر ملزمان کے مقدمات کی کارروائی اور جیلوں میں مشکل کا باعث بنتا ہے۔
سارہ بلال کے مطابق حکومت یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ ملک میں سزائے موت کا کوئی بھی قیدی کم سن نہیں لیکن پیدائش کے اندراج نہ ہونے سے اس بات کا امکان ہے کہ ایسے زیر سماعت قیدی ہیں جو کم عمر ہیں اور ان کے خلاف لگائے گئے الزمات پر انہیں سزائے موت ہوسکتی ہے۔
سربراہ جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق گزشتہ برس لاگو کیے گئے ’جوونائیل جسٹس سسٹم ایکٹ‘ کی پیچیدگیاں پہلے نافذ ہونے والے جوونائیل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 سے ملتی جلتی ہیں۔