صحرائے تھر جین مندروں کا امین بھی ہے
صحرائے تھر جین مندروں کا امین بھی ہے
صحرا کا خیال آتے ہی ذہن میں اُڑتی ریت کا تصور پیدا ہونے لگتا ہے اور وجود کسی سراب کے گرد گھومتا محسوس ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صحرا محض اُڑتی ریت، ویرانی، دھوپ اور مصیبتوں سے بھری زمین کا نام نہیں ہے بلکہ یہاں ہر رنگ میں زندگی کا وجود بسا مل جاتا ہے۔
آج جہاں تاحدِ نظر ریت ہی ریت ہے، کہیں کوئی اِکا دُکا درخت کسی تھکے ہارے مسافر کے لیے تپتی دھوپ میں چھاؤں کا سامان بن کر کھڑا ہے، وہ صحرا کسی زمانے میں سمندر تھا، ذرا تصور کیجیے اس زمانے میں یہاں کا رنگ و روپ کیسا رہا ہوگا؟
آج سے ہزاروں برس قبل تھر سمندر کا حصہ تھا، مگر یہ وقت کی کارستانی ہے کہ صحرا سمندر بن جاتے ہیں اور سمندر صحراؤں کا روپ دھار لیتے ہیں، لیکن کسی بھی صحرا کے رنگ تب کھل اٹھتے ہیں جب وہاں بارش کی پھوار برستی ہے اور بے جان سی نظر آنے والی ریت پر جابجا ہریالی کی صورت ایک نئی زندگی کا جنم ہوتا ہے۔
سندھی میں تھر کے حوالے سے ایک کہاوت ہے کہ ’وٹھو تہ تھر نہ تہ بر ئی بر‘ (برسات ہے تو تھر ہے ورنہ ویرانہ ہی ویرانہ ہے) اس لیے اس صحرا میں خوشی اور شادمانی بارش سے مشروط ہے۔