کیا کمال کی ابتدا ہے اور کیا زوال کا اختتام!
کہ اب یہاں میلہ نہیں لگے گا۔۔۔
ہمارے اس طبقاتی سماج میں، مرکزی طور پر 3 طبقات بستے ہیں، ایک وہ جن کو جیب میں پیسے رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جن کو اپنے بینک بیلنس کا بھی پتا نہیں ہوتا، یوں سمجھیے کہ ان لوگوں کی ایک الگ دنیا ہے۔
پھر مڈل یا متوسط طبقہ ہے، جو بالکل منجدھار میں ہی پھنسا رہتا ہے، نہ اِس کنارے پر نہ اُس کنارے پر، اسے بس سفید استری شدہ کپڑے ہی نصیب ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں جو تیسرا طبقہ بستا ہے، وہ فقط بستا ہی ہے۔ اس کے پاس ہوتا کچھ نہیں ہے، نہ بجلی، نہ ہسپتال، نہ راستہ، نہ کوئی اور زندگی کی سہولت۔ ایک زمانے میں پینے کا پانی آتا تھا، اب وہ بھی کبھی کبھار نصیب ہوپاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ ان کے حالات میں امیدوں اور خوابوں کی زیادتی جبکہ محرومیوں کی بہتات ہوتی ہے۔
جب میں نے شہر چھوڑا تب دن کے 11 بجے تھے اور دھوپ تیز تھی۔ شہر سے کچھ کلومیٹر کے سفر کے بعد شہر کی ساری نازک مزاجیاں اور نفاست پیچھے شہر کی گلیوں میں رہ گئیں۔
راستے میں نہریں تھیں، جون کے آخر تک نہروں میں پانی آجانا چاہیے تھا مگر نہیں آیا تھا۔ اس لیے نظر جہاں بھی جاتی اپنے ساتھ سوکھے کے منظر ہی لاتی البتہ کیکر، دیوی یا مسکیت اور پیلو کی ہریالی کہیں کہیں نظر آجاتی تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان درختوں نے اس ماحول میں جینا سیکھ لیا سو جیے جا رہے ہیں۔