وکلا بڑی تیزی سے اپنی عزت گنوا رہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکلا کی تربیت کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد تحریک بحالی عزت وکلا کی ضرورت ہے کیونکہ وکلا بڑی تیزی سے اپنی عزت گنوا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں فیڈرل جودیشل اکیڈمی میں وکلا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ زیرالتوا مقدمات نمٹانے کے لیے ماڈل کورٹس کا قیام اچھا اقدام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور طب کے شعبے بہت مقدس ہیں اور دھوکا دینے والوں کے لیے عدلیہ اور شعبہ طب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر انسانی جسم کی بیماریوں سے لڑتا ہے اور : ایک وکیل معاشرے کے لیے لڑتا ہے اس لیے وکیل کو ڈاکٹر سے زیادہ پروفیشنل ہونا چاہی۔
یہ بھی پڑھیں:موثر تفتیش کیلئے پولیس کی خودمختاری ضروری ہے، چیف جسٹس
نوجوان وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری آپ کو نصیحت ہے کہ ایک وکیل کو کسی معاوضے کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ لوگوں کے لیے لڑیں اور انسانیت کی خدمت کریں، پیسہ اللہ آپ کو پہنچا دے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انسانیت کی مدد کریں اور دولت کے پیچھے مت بھاگیں، ہمیشہ محنت کریں کیونکہ محنت ہی کامیابی کی بنیاد ہے۔
وکلا کی تربیت کو لازمی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سسٹم میں تربیت کا بہت فقدان ہے، وکلا کی تربیت لازمی ہے، برطانیہ میں لا گریجویٹس کی تربیت کرکے انہیں وکیل بنایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لا کالجوں کی کثرت کی وجہ سے اب سینئر وکلا کی کمی ہو گئی ہے اور اب ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں نوجوان وکلا کی تربیت کی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ آپ مقدمات صرف جان دار دلائل سے ہی جیت سکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور چیز کام نہیں آتی۔
مزید پڑھیں:'جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کر کے رکھ دیا'
وکلا کو اپنی ساکھ کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک بحالی عدلیہ چلی تھی جس کے بعد عدلیہ آزاد ہوئی تھی اور بہت عزت ملی تھی اور اب تحریک بحالی عزت وکلا کی ضرورت ہے کیونکہ وکلا بڑی تیزی اپنی عزت گنوا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا کا پیشہ اتنا معزز ہے صرف اس لیے عزت گنوائی جارہی ہے کہ کوئی ایک واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو میڈیا کی وجہ سے پورا ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے اور کسی ایک کی غلطی کو سارے وکلا سے منسوب کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کسی ایک وکیل کا معاملہ نہیں بلکہ ہم سب کا معاملہ ہے، وکیل بحث زبان اور دماغ سے کریں، ہاتھوں سے نہیں کرنی چاہیے اور ہمیں اپنی برادری کو سمجھانا ہے کہ یہ فعل ہر گز نامناسب ہے اور اپنے عمل سے اپنی عزت بڑھانی ہے۔
عدالت میں جج کے عمل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں تقریری مقابلہ نہیں ہونا چاہیے، جج سوال پوچھتا ہے تو وکیل کو جج کا دماغ سمجھ جاناچاہیے اور کبھی کسی جج کو شرمندہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں آپ کسی کا ذہن جیتنے کے لیے آتے ہیں اس لیے آپ عزت واحترام سے پیش آئیں اور اپنے کلائنٹ کا فائدہ بھی زیر نظر رکھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کی عزت کا کلچر واپس لانا پڑےگا کیونکہ اسی میں بھلائی ورنہ زیادہ خرابی ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے زمانہ طالب علمی کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب میں کیمبرج یونیورسٹی میں اپنی وکالت مکمل کررہا تھا تو اس وقت انگلینڈ میں ایک مشہور نام لارڈ ڈیننگ تھا جنہیں لیکچر کے لیے دعوت دی گئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ ایک اچھا وکیل بننے کے لیے تین چیزوں پر عبور ہونا چاہیے جس میں پہلی چیز تاریخ، دوسری حساب اور تیسرا لٹریچر ہے۔