'کیا وہ مرتبان سے اچار نکال لے گا؟'
'کیا وہ روٹی کھالے گا؟'
یہ وہ ساری باتیں تھیں جو اسے پلیٹ فارم پر یاد آرہی تھیں۔
12:34
'کھانا کھانے کے بعد جیدا کیا کرے گا؟'
'میرا خیال ہے اتنی دیر میں گڑیا پھر سے رونا شروع کردے گی، شاید جیدے نے ابھی آدھی روٹی کھائی ہو، وہ بھاگ کر بڑے کمرے میں جائے گا۔'
'گڑیا نیند سے اٹھنے کے بعد جو روتی ہے تو ماں کے علاوہ کسی سے چپ نہیں ہوتی۔ پھر جیدا کیا کرے گا؟'
'پتا نہیں کیا کرے گا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جیدا آخر گڑیا کو کیسے چُپ کرائے گا۔'
'شاید وہ اسے ایک تھا راجہ ایک تھی رانی والی نظم سنائے۔'
'لیکن گڑیا چپ نہیں کرے گی'، یہ سوچ کر اُس کا جی بھر آیا۔
'چپ کر جاؤ میری گڑیا'
'چپ کر جاؤ میری پیاری'
اس نے پلیٹ فارم پر کھڑے کھڑے زیرِ لب دہرایا اور آنکھوں سے بہتے پانی میں تیزی آگئی، اس نے فوراً اپنی چادر سے چہرہ پونچھا اور دائیں جانب ٹرین کی تلاش میں نظر دوڑائی۔
'شبیر صاحب اب تو 12:35 ہوگئے ہیں، کیا آپ نے غلطی سے تو اطلاعی گھنٹی نہیں بجادی؟‘، ایک آدمی نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا۔
'20 سال ہوگئے ہیں یہی کام کرتے، اب تو نیند میں بھی گاڑیوں کے آنے جانے کا وقت یاد رہتا ہے بلکہ ساری رات خوابوں میں گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ پچھلے اسٹیشن سے چل نکلی ہے تو بس آتی ہی ہوگی، آپ اپنا سامان تیار رکھیں'، شبیر صاحب نے اس شخص کو جواب دیا۔
شمیم بی بی کے پاس تو کوئی سامان بھی نہیں تھا، فقط جان تھی جسے اس نے کھینچ کر پٹڑی تک لے کر جانا تھا اور وہ اس کام کے لیے تیار تھی۔ اگر گاڑی وقت پر آجاتی تو یہ منٹ اور یہ سانسیں کب کی ختم ہوچکی ہوتیں۔
'گڑیا نے اب بھی چُپ نہیں کیا ہوگا، جیدا بھلا کہاں چپ کراسکتا ہے وہ تو خود ابھی بچہ ہے۔ پہلی جماعت میں کوئی اتنا سمجھدار تھوڑی ہوجاتا ہے کہ وہ روتے بچے کو چپ کرالے بلکہ چپ کرانا تو ان کے نشئی باپ کو بھی نہیں آیا'۔
فیقے کا خیال آتے ہی اسے اپنی کمر کے زخموں میں درد محسوس ہونے لگا۔ ابھی تک اسے گرمی اور پسینے کے بارے معلوم بھی نہیں تھا، فیقے کے خیال سے ہی پسینے میں موجود نمک اس کی کمر کے زخموں میں سرایت کرنے لگا۔ پھر اس نے زخمی اور قدرے جھکی ہوئی کمر کو تھوڑا سا سیدھا کیا تو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ بہنے لگے، اس نے چادر سے چہرہ ڈھانپ لیا۔
اسے شادی سے پہلے والے فیقے کا خیال آیا جو کہتا تھا، میرے ساتھ بھاگ کے شادی کرلو تمہیں شہزادی بنا کر رکھوں گا اور وہ بھی کتنی نادان تھی کہ اس کی ہر بات کو سچ سمجھ کر ایک رات گھر سے بھاگ آئی تھی۔ ماسٹر کریم داد کی 10 جماعتیں پاس کرنے والی اکلوتی بیٹی کیسا قدم اٹھا بیٹھی تھی۔
اسے پورے 2 دن بعد ماسٹر کریم داد کا خیال آیا تھا، ایسے جیسے کوئی کسی سفر پر نکلے اور جب منزل پر پہنچے تو یوں محسوس ہو کہ کچھ بہت قیمتی چیز راہ میں کہیں کھو گیا ہے، اس سے بھی اس کے ابا کی محبت کھوگئی تھی۔
'ابا کس حال میں ہوگا؟' 2 دن بعد یہ بات اسے رہ رہ کرستانے لگی۔
ادھر ابا کے پاس ماضی کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ بیوی مدت پہلے فوت ہوگئی تھی، اکلوتی اولاد کو ماں اور باپ دونوں بن کر پال رہا تھا کہ یکدم اس کی گاڑی بھی پٹڑی سے اُتر گئی۔
شادی کے 3 مہینے بعد وہ اپنے ابا کو دیکھنے گئی تھی، دراصل پڑوسیوں کا فون آیا تھا۔
'اپنے ابا کو دیکھ جاؤ، حالت کوئی نہیں ہے اب'
وہ وہاں پہنچی تو سامنے ایک ہڈیوں کا پنجرہ تھا جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہوا کے اندر جانے سے اوپر اُٹھتا تھا۔
3 مہینے کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوتا لیکن آدمی کو دُکھ کی دیمک لگ جائے تو 3 مہینے بہت ہوتے ہیں۔
بہت سے دکھوں میں شمیم بی بی کو یہ بھی ملال تھا کہ آخری وقت ابا اسے پہچان نہیں پایا تھا حالانکہ اس نے رو رو کر بتایا تھا کہ وہ شمیم ہے، ان کی اکلوتی بیٹی۔
معلوم نہیں وہ بوڑھی آنکھیں آخری سمے کیا دیکھ رہی تھیں اور کسے خبر کہ ان میں اس وقت کچھ نظر بھی آرہا تھا یا نہیں۔
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔