’میرے شوہر نے مجھے حیوانوں کی طرح مارا، وہ جو میرا نگراں تھا، اس نے مجھے ڈرایا، کسی گھر والے کو بلانے کے بجائے دوست سے رابطہ کیا جس کے بعد مجھے فوری ہسپتال لے جایا گیا، ڈاکٹر نے ابتدا میں تو میرا چیک اپ کرنے سے انکار کیا کیوں کہ یہ پولیس کیس تھا، مجھے کچھ وقت چاہیے تھا تو میں اس حال میں فوری ایف آئی آر درج نہیں کراسکی‘۔
فاطمہ سہیل نے مزید اپنی پوسٹ میں مزید بتایا کہ’میرا الٹرا ساؤنڈ ہوا تو مجھے اس بات کی تسلی ہوئی کہ میرا بچہ محفوظ تھا، میں نہیں جانتی کہ اب اسے سماجی دباؤ کہیں گے یا پھر میری اپنی ہمت، میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے بچے کی خاطر اس شادی کو پھر ایک موقع دوں گی‘۔
’20 مئی 2019 کو میرا خوبصورت بیٹا پیدا ہوا، میری سرجری ہوئی تھی کیوں کہ کچھ پیچیدگیاں تھیں‘۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ’جب میں لاہور میں ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں تھی تو میرا شوہر کراچی میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ سو رہا تھا‘۔
یہ بھی پڑھیں: 'ڈپریشن کے بارے میں بات کرنے سے مجھے بہت زیادہ مدد ملی'
فاطمہ سہیل کا کہنا تھا کہ 'اس (محسن عباس) نے بعدازاں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی پوسٹ شیئر کیں، تاکہ عوام کی توجہ حاصل کرسکے، میری فیملی تو میرے ساتھ کھڑی رہی لیکن میرے ساتھی نے مجھے سپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا'.