تصدق حسین جیلانی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان 2008 میں ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان نے قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہیں دی۔
اختلافی نوٹ میں انہوں نے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس پر ویانا کنوینشن کا اطلاق ہوتا بھی ہے تب بھی پاکستان نے اس کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پہلے ہی کلبھوشن یادیو کی فوجی عدالت سے سزا پر نظر ثانی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری طریقہ کار اختیار کر چکا ہے۔
تصدق حسین جیلانی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ ' عالمی عدالت نے اس فیصلے میں ظاہری طور پر ایسے وقت میں ایک خطرناک مثال قائم کردی ہے جب ریاستیں بڑھتی ہوئیں سرحد پار دہشت گرد سرگرمیوں اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نبرد آزما ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس، کب کیا ہوا؟
عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی ایڈہاک جج نے لکھا کہ 'دہشت گردی ایک منظم ہتھیار بن چکی ہے، تاہم اقوام عالم اس سے اپنی مدد آپ کے تحت نبرد آزما ہوں گے۔ ایسے خطرات قونصلر تعلقات سے متعلق ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کی درخواست کے دائرہ کار پر نافذ مخصوص پابندیوں کا قانونی جواز پیدا کرسکتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت اوینا اور لا گرینڈ قانون پر انحصار کرتی ہے اور یہ کیس اس قانون سے بہت مختلف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن مختلف عوامل کی مخالفت کا عدالت کو سامنا ہے ان میں سب سے اہم ایک شخص کی دوسرے ملک کے خلاف جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری، قید، ٹرائل اور سزا کے انفرادی طور پر خصوصی حالات ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی
ان کا اپنے اختلافی نوٹ میں مزید کہنا تھا کہ 'کیونکہ یہ کنوینشن ریاستوں کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی راہ فراہم کرتا ہے، تاہم بامشکل ہی کوئی ایسی صورت ہوسکتی ہے جس کے تحت ویانا کنوینشن کا مسودہ تیار کرنے والوں نے ان حقوق میں جاسوسوں یا پھر ایسے افراد، جنہیں ایک ملک (بھارت) سے دوسرے ملک (پاکستان) کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے ارادے کے طور پر بھیجا گیا ہو، کو اس میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا ہو۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ کلبھوشن نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کا جاسوس ہونے کا اعتراف کیا، جبکہ ویانا کنوینشن کا اطلاق جاسوس پر نہیں ہوتا۔
تصدق حسین جیلانی نے لکھا کہ '31 مئی 2017 سے پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کے خلاف مجرمانہ کیس کی تحقیقات میں ضروری تعاون کے لیے 6 مرتبہ درخواست دی تاہم اس پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پاکستان نے بھارتی قوانین کے تحت کارروائی کرنے کی رضامندی پر کلبھوشن یادیو کو نئی دہلی کے حوالے کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔'
یہ بھی دیکھیں: کلبھوشن کیس: پاکستانی وکیل کے دلائل پر بھارتی وکیل پریشان
انہوں نے مزید لکھا کہ 'بھارتی حکام 3 بھارتی صحافیوں کرن تھاپر، پروین سوامی اور چندن نندے کو دیے گئے اپنے انٹرویوز میں کلبھوشن یادیو کے را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں۔'
پاکستانی ایڈہاک جج کا کہنا تھا کہ 'بھارت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کیس میں پاکستانی تعاون کی پیشکش کو مسلسل مسترد کرنا اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کے منافی ہے جو اس کے ساتھ عالمی ادارے کے ممبر ممالک کو یہ منڈیٹ دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ان مجرمانہ کیسز کی تحقیقات میں بڑی حد تک تعاون کریں جن کا تعلق دہشت گردوں کی مالی اور زمینی معاونت سے ہو جبکہ ان میں مجرموں کے خلاف کیس کے لیے ضروری شواہد حاصل کرنے کی مدد بھی شامل ہے۔'
جسٹس تصدق حسین جیلانی نے لکھا کہ 'پاکستان کے مطابق یادیو کی دہشت گرد کارروائیاں اور ان کی تیاری ان کارروائیوں کا تسلسل ہیں جو بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کرتا رہا ہے۔'
مزید پڑھیں: بھارتی جریدے کا کلبھوشن یادیو کے حاضر نیوی افسر ہونے کا اعتراف
انہوں نے مزید کہا کہ 'پاکستان کے مطابق کلبھوشن یادیو کو ساروان سرحد پر ایران سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں نے گرفتار کیا جس کے بارے میں بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بھارتی نیوی کا ریٹائرڈ افسر ہے جسے ایران سے اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ ایران میں کاروبار کے لیے موجود تھا۔'
اپنے نوٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'تاہم بھارت کلبھوشن یادیو کی نیوی سے ریٹائرمنٹ کی تاریخ نہیں بتاسکا، اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے ریکارڈ پر لانے کے لیے کلبھوشن کے کاروبار سے متعلق دستاویزات پاکستان کو فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ اس کب اور کیسے اغوا کیا گیا۔'
تصدق حسین جیلانی نے بھارت کے ناکافی اقدامات کو اپنے اختلافی نوٹ میں اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ 'بھارت کے مطابق اگر کلبھوشن یادیو ایران سے گرفتار ہوا ہے تو نئی دہلی اس کی شکایت تہران سے کر سکتا تھا، تاہم وہ ایسا کرنے میں بھی ناکام رہا۔'
یہ خبر 18 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی