آصف شاہد آپ جی این این نیوز میں بطور انٹرنیشنل ڈیسک ہیڈ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں
ویسے تو دونوں ملک فیصلے پر شادیانے بجا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ کسی ایک کے حق میں نہیں آیا۔
بھارت نے مطالبات کا ڈھیر عالمی عدالت کے سامنے لگایا تھا، تاہم انہیں وہاں سے کچھ زیادہ حاصل نہ ہوسکا، دوسری طرف پاکستان کو بھی وہ سب کچھ نہیں مل سکا جو وہ چاہ رہا تھا۔
بھارت کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ یادو کو رہا کیا جائے اور دوسرا یہ تھا کہ اسے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے تاہم عالمی عدالت نے اس کے یہ دونوں ہی مطالبے مسترد کردیے۔ تیسرا مطالبہ جس پر بھارت نے کافی شور بھی مچایا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ یادو کو قونصلر رسائی دی جائے اور ان کی سزا کالعدم قرار دے کر اس پر نظرثانی کی جائے۔
عالمی عدالت نے یہ مطالبہ مان لیا ہے اور قونصلر کی رسائی دینے کے ساتھ ساتھ نظرثانی کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا ہے۔
بھارت نے پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ اس نے ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کی ہے، اور پاکستان کے خلاف یہ الزام بھی درست تسلیم کرلیا گیا لہٰذا آج تک یادو کے حوالے سے جو بھی کارروائی کی گئی ہے، اسے عالمی عدالت نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ غیر قانونی قرار دینے کے نتیجے میں وہ پاکستان کی عدالتوں کو براہِ راست کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے فوجی عدالت پر زیادہ تبصرہ نہیں کیا، لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے مؤثر انداز میں کلبھوشن کیس پر نظرثانی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مؤثر نظرثانی کے لیے انہوں نے پاکستان کے نظامِ انصاف پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں چلنے والے سعید زمان کیس کا حوالہ بھی دیا کہ فوجی معاملات یا فوجی عدالتوں سے متعلق کئی معاملات پاکستانی عدالتوں کے دائرہ کار میں نہیں آتے اور اس بے بسی کا اظہار انہوں نے سعید زمان کیس میں کیا۔
تاہم اسی کے ساتھ انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ عالمی عدالت کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے ایک مثالی فیصلہ دیا تھا جس میں انہوں نے فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ لہٰذا اس نکتے پر آکر انہیں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مؤثر نظرثانی میں پاکستان کا آرمڈ سروسز ایکٹ 1952ء ایک رکاوٹ ہے، کیونکہ پاک افواج کے جتنے بھی امور ہیں وہ سول عدالتوں میں نہیں اٹھائے جاتے، یوں مؤثر نظر ثانی کے لیے ضرورت پڑے تو پاکستان قانون سازی کرے، لہٰذا بھارت کے حق میں کئی ایسی باتیں تسلیم کرلی گئیں جن کا انہوں نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔
تاہم یہ فیصلہ کافی زیادہ ہمارے حق میں بھی ہے کیونکہ بھارت نے یہ بات بھی اٹھائی تھی کہ یاھو نہ تو جاسوس ہے اور نہ ہی وہ کسی تخریب کاری میں ملوث ہے، لیکن یہاں عالمی عدالت نے بھارت کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ عالمی عدالت نے اس وضاحت کے ساتھ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی کہ چونکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن ہمارے ہاں تخریب کاری پھیلانے میں ملوث تھا مگر ویانا کنوینشن کا آرٹیکل 36 جاسوسی میں ملوث افراد کو بھی کنوینشن سے مستثنی قرار نہیں دیتا، اس لیے ہم اس کی قونصلر رسائی کا فیصلہ کرتے ہیں۔
یعنی ایک طرح سے عالمی عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی کرتا رہا تھا لہٰذا پاکستان اپنے عدالتی نظام کے تحت اس کے ساتھ سلوک روا رکھ سکتا ہے۔
یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ 2007ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک معاہدے ہوا تھا۔ قیدیوں کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی ایک شق کے مطابق سیکیورٹی معاملات میں ملوث افراد کی گرفتاری کے بعد نہ تو ان کے حوالے سے فوری اطلاع دی جائے اور نہ ہی انہیں قونصلر رسائی دی جائے گی۔
لیکن عالمی عدالت میں بھارتی وکیل نے مؤقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ ویانا کنوینشن کی موجودگی میں اس معاہدے کی اس معاملے میں کوئی حیثیت نہیں، اور عالمی عدالت نے ان کے اس مؤقف کو تسلیم کیا ہے۔
پاکستان نے اسی معاہدے کی بنیاد پر قونصلر رسائی سے انکار کیا تھا، لیکن عالمی عدالت نے اس معاہدے کو ویانا کنوینشن کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینے سے انکار کیا ہے۔ اس صورتحال میں 2007ء کے اس معاہدے کو کالعدم قرار دیے جانے کا تاثر پیدا ہوگیا ہے۔
چنانچہ ہمیں قیدیوں کے حوالے سے اس معاہدے میں کسی قسم کی نئی پیش رفت کرنی پڑے گی یا پھر مستقبل میں اگر بھارت پاکستان سے اس معاہدے کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرتا ہے تو پاکستان وہی مؤقف اپنا سکتا ہے جو بھارت نے عالمی عدالت میں اپنایا، اور اس بات کا اظہار کرسکتا ہے کہ چونکہ بھارت نے ماضی میں کلبھوشن کیس میں 2007ء کے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا لہٰذا پاکستان بھی مطالبات کو تسلیم نہیں کرتا۔
یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔
قونصلر رسائی سے کیا مراد ہے؟ اس کیس کے بات اہم ترین سوال یہ پیدا ہوا تھا کہ آخر قونصلر رسائی سے مراد کیا ہے؟ تو اس سے مراد یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کسی بھارتی شہری کو کوئی جرم کرنے پر قید کیا جائے تو ویانا کنوینشن کے معاہدے کے تحت ہم اس بھارتی شہری کے حوالے سے پاکستان میں موجود بھارتی سفارتی مشن کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں اور ہم بھارتی قیدی کو بھی یہ بتانے کے پابند ہیں کہ وہ کون کون سے حقوق رکھتا ہے اور یہ کہ بھارتی سفارتخانے کو اس کی گرفتاری کی اطلاع دی جاچکی ہے، اور سفارتخانہ اس کی قانونی کارروائی میں مدد کرے گا۔
سفارتکار کی قیدی سے ملاقات کروائی جائے گی اور سفارت کار اس سے پوچھے گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟
اب چونکہ کلبھوشن یادو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر گرفتار کیا گیا ہے اس لیے ہم نے 2007ء کے معاہدے کے تحت ہی یادو کو قونصلر رسائی دینے سے انکار کیا تھا۔ تاہم عالمی عدالت نے ہمارا مؤقف مسترد کردیا۔
چنانچہ اب سفارتی مشن یادو سے نہ صرف ملاقات کرے گا بلکہ ان کے لیے وکیل کا بندوبست بھی کرسکتا ہے اور نظرثانی کے حوالے سے عدالتی کارروائی کی مانیٹرنگ بھی کی جاسکے گی۔