شٹر اسٹاک فوٹو
سائنسدانوں نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں توہمات کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور بحری و فضائی جہازوں کے غائب ہونے پر مختلف خیالات پیش کیے۔
مثال کے طور پر 2016 میں کولوراڈو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس راز کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔
کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو 'ہوائی بم' کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔
سائنسدانوں نے ناسا کے سیٹلائیٹ کا استعمال کرتے ہوئے اس خطے کا ڈیٹا اکھٹا کیا اور شش پہلو بادلوں کو دریافت کیا جو کہ 32 اور 88 کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بادل انتہائی غیر معمولی ہیں ' آپ عام طور پر بادلوں کے ایسے کونے نہیں دیکھتے'۔
انہوں نے مزید بتایا ' اس طرح کے بادل سمندر کے اوپر ہوائی بموں کی طرح کام کرتے ہیں، وہ ہوا کے دھماکے کرتے ہیں اور نیچے آکر سمندر سے ٹکرا کر ایسی لہریں پیدا کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ بلند ہوتی ہیں'۔
اسی سال ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی نے خیال پیش کیا تھا کہ سمندری تہہ میں موجود میتھین یا قدرتی گیس کی موجودگی اس معمے کے پیچھے ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس گیس کا اچانک اخراج جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے باعث ہی طیارے اور جہاز غائب ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ گیس ہوا میں داخل ہوکر طوفانی کیفیت پیدا کرسکتی ہے جس سے طیارے گرجاتے ہیں۔
دوسری جانب 2017 میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کارل کروزن لینسکی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سمندری خطے میں متعدد بحری جہازوں اور طیاروں کے بغیر کسی سراغ کے غائب ہونے کے پیچھے خلائی مخلق یا اٹلانٹس کے گمشدہ شہر کے فائر کرسٹلز کا ہاتھ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں گمشدگیاں ماورائی نہیں بلکہ خراب موسم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں اور اگر اوسط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر جگہ اس طرح بحری اور ہوائی جہاز غائب اتنی تعداد میں ہی غائب ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمندری تکون 5 لاکھ اسکوائر میل رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہاں بہت زیادہ سمندری ٹریفک ہوتی ہے۔
ان کے بقول جب آپ وہاں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکالیں گے کہ دیگر سمندری خطوں کے مقابلے میں اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں۔
آسٹریلین سائنسدان کے مطابق امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 کا واقعہ خراب موسم اور انسانی غلطی کے باعث پیش آیا تھا جس کا عملہ بھی نشے میں دھت تھا۔
2018 میں برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس سمندری تکون کا راز وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔
تحقیقی ٹیم کا ماننا تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔
محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔
اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا،
542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔
مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک غیرمصدقہ رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں۔