تاجر برادری آخر ’شناختی کارڈ‘ کے نام سے اتنا کیوں گھبرا گئی ہے؟
ہفتے کے روز گرمی اپنے عروج پر تھی اور تیز ہوا کے باوجود پسینے چھوٹ رہے تھے۔
اب چونکہ ہم ٹھہرے رپورٹر لہٰذا گرمی ہو یا سردی، ہنگامہ ہو یا کسی طوفان کی آمد، خبر عوام تک پہنچانے کے لیے فیلڈ میں نکلنا ہی پڑتا ہے۔ اسی لیے ہفتے کو تاجروں کی ملک گیر ہڑتال کی رپورٹنگ کے لیے کراچی کی مارکیٹوں میں پھرتا رہا۔ پسینے اور گرمی کی وجہ سے بہت نقاہت محسوس ہورہی تھی اس لیے کچھ دیر آرام کی خاطر پریس کلب کا رُخ کرلیا۔
کام تو چونکہ کرنا ہی تھا، اس لیے مزید کام کرنے سے پہلے ایک ٹھنڈا لیموں پانی کا گلاس منگوایا اور پھر ہڑتال میں اہم کردار نبھانے والے عتیق میر سے فون پر رابطہ کیا۔ عتیق میر کے مطابق تو ہڑتال نہ صرف کامیاب رہی بلکہ حکومت کو پیغام بھی مل گیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں ہر حکومت نے پرچون کی سطح پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی ہے مگر کوئی بھی حکومت ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
عتیق میر کے مطابق سیلز ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کے خلاف تاجروں نے 50 سے زائد ہڑتالیں کی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں سیلز ٹیکس سروے کے خلاف ہڑتال 17 دن تک جاری رہی اور یہ اب تک کی سب سے طویل ہڑتال ہے۔ اسی طرح سونے کے تاجروں نے بھی ٹیکسوں کے عائد کیے جانے کے خلاف 45 دن کاروبار بند رکھا تھا۔
فون بند کیا تو سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کے بیان پر نظر پڑی جس میں وہ نہ صرف ہڑتال کی مخالفت کررہے تھے بلکہ انہوں نے دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان کے تاجروں کی اکثریت نے ہڑتال کی کال مسترد کردی ہے۔ وہ حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے جی ڈی پی میں ریٹیل یا پرچون کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے جبکہ ٹیکسوں میں اس کا حصہ 0.25 فیصد ہے۔ حماد اظہر کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ دکانداروں کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ میں رجسٹر ہی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے تاجروں پر سیلز ٹیکس یا جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنے کی کیسی کوششیں کیں اور تاجروں کا اس پر ردِعمل کیسا رہا؟
مسلم لیگ (ن) کی پہلی حکومت
نواز شریف کی حکومت نے 1990ء میں پہلی مرتبہ سیلز ٹیکس کا قانون ملک میں نافذ کیا تھا۔ اس قانون کے تحت فیصلہ ہوا کہ ملک بھر میں قائم چنگی ناکے ختم کرکے یہ ٹیکس وفاقی سطح پر وصول کیا جائے اور بعد ازاں صوبے اور اضلاع تک منتقل کردیا جائے۔ ممکن ہے چنگی ناکے بہت سے لوگوں کو سمجھ نہ آئے، اس لیے وضاحت کردیتا ہوں کہ درحقیقت یہ وہ چھوٹے چھوٹے ٹیکس ہوا کرتے تھے جس کا کوئی حساب نہیں ہوتا تھا۔ اس ٹیکس کے نفاذ پر بھی تاجروں نے پہلے پہل احتجاج کیا مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کے ذریعے چنگی ناکے ختم ہو رہے ہیں تو وہ اس ٹیکس کے عائد ہونے پر آمادہ ہوگئے۔
پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت
1993ء کے انتخابات کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت قائم ہوئی تو اس وقت بھی پاکستان میں معیشت کا بحران سنگین تھا۔ حکومت چلانے کے لیے فنڈز درکار تھے۔ پیپلزپارٹی نے جب اپنے بجٹ میں تاجروں اور صنعت کاروں پر ٹیکس عائد کیے تو پاکستان کی تاجر اور صنعت کار برادری نے وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ایک ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ ایس ایم منیر اس وقت فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر جو احتجاج کے دوران ایف پی سی سی آئی کی قیادت نائب صدر ہمایوں سعید کو تھما کر کسی کام سے بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔